پاکستان: دہشت گردی کے واقعات میں رواں سال نماياں اضافہ
4 دسمبر 2025
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی رپورٹ کے مطابق 2025ء کے پہلے گیارہ مہینوں کے دوران پاکستان میں کم از کم 3,187 افراد ہلاک اور 1,981 افراد زخمی ہوئے، جن میں عام شہری، سکیورٹی اہلکار اور جنگجو شامل تھے۔ 2024ء میں پرتشدد واقعات ميں ہلاکتوں کی تعداد 2,546 تھی۔
پاکستانی ميڈيا میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق یہ جانی نقصان دہشت گردی کے حملوں اور انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں سمیت 1,188 پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں ہوا۔ تشدد کے زیادہ تر واقعات خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پیش آئے، جہاں جنوری سے نومبر 2025 تک ہونے والے حملوں کا تناسب 92 اور ہلاکتوں کا 96 فیصد تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا، جہاں 68 فیصد (2,165) ہلاکتيں اور 62 فیصد (732) پر تشدد واقعات ہوئے۔ بلوچستان دوسرے نمبر پر رہا جہاں 28 فیصد (896) ہلاکتيں جبکہ تشدد کے واقعات کا تناسب 30 فیصد (366) رہا۔
سندھ، پنجاب، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں مجموعی طور پر 90 واقعات پیش آئے، جن میں 126 افراد جان کی بازی ہار گئے جو کہ مجموعی ہلاکتوں کا چار فیصد بنتا ہے۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ
گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال پر تشدد واقعات ميں نمایاں اضافہ ہوا۔ رواں سال کے گیارہ ماہ میں ریکارڈ کی گئی 3,187 ہلاکتیں، 2024 کے پورے سال کی مجموعی ہلاکتوں سے 25 فیصد زیادہ ہیں۔ اس عرصے میں اوسطاً روزانہ تقریباً 15 افراد ہلاک ہوئے۔
2025ء کے پہلے گیارہ مہینوں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں خاصی مؤثر رہیں، جن کے نتیجے میں 1,795 شدت پسند مارے گئے۔
تاہم صوبائی سطح پر صورتحال بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز نے عملی میدان میں بالا دستی قائم رکھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی آپریشنز میں ہونے والی ہلاکتیں (1,370) دہشت گرد حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں (795) سے 72 فیصد زیادہ رہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ صوبے میں بڑے پیمانے پر اور جارحانہ انسدادِ دہشت گردی مہمات ہلاکتوں کا مرکزی سبب رہیں۔
صوبائی سطح پر صورتحال مختلف
بلوچستان میں صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ وہاں دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت 517 افراد ہلاک ہوئے، جو سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ہونے والی 379 ہلاکتوں سے 36 فیصد زیادہ ہیں۔
یہ ظاہر کرتا ہے کہ صوبے میں شدت پسند گروہوں نے اب بھی زیادہ جارحانہ پیش قدمی برقرار رکھی ہوئی ہے اور وہ سکیورٹی فورسز کے لیے مستقل اور سخت چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
یہ فرق اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ اگرچہ قومی سطح پر انسدادِ دہشت گردی کا جارحانہ رجحان غالب دکھائی دیتا ہے، مگر بلوچستان میں صورتحال خاصی غیر مستحکم ہے، جہاں شدت پسند کارروائیاں زیادہ جانی نقصان کا باعث بن رہی ہیں۔
خیال رہے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز(سی آر ایس ایس) ایک پاکستانی تھنک ٹینک ہے جس کی بنیاد سول سوسائٹی کے کارکنوں نے رکھی تھی۔
ادارت: عاصم سلیم