پاکستان: رواں ششماہی میں افراط زر کی متوقع شرح تینتیس فیصد
15 فروری 2023پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ 15 فروری کے روز ملنے والی رپورٹوں میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ اقتصادی تجزیہ کار ادارے مُوڈیز اینیلِٹکس کی ایک سینیئر تجزیہ کار نے بتایا کہ رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستان میں افراط زر کی اوسط شرح 33 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ اس شرح میں ممکنہ کمی کا رجحان رواں برس کی دوسری ششماہی میں دیکھنے میں آئے گا۔
پاکستانی حکومت رواں ماہ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گی
لیکن ساتھ ہی مُوڈیز کی سینیئر تجزیہ کار کاترینا اَیل نے روئٹرز کو بتایا کہ زرمبادلہ کی کمی کا شکار پاکستانی حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ کے طور پر جو رقوم حاصل کرنا چاہتی ہے، ان کے ملنے کے بعد بھی ملکی معیشت کو واپس ترقی کی راہ پر نہیں لایا جا سکے گا۔
انتظامی نوعیت کے اقتصادی فیصلے
کاترینا اَیل نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''ہماری رائے میں آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج بھی پاکستانی معیشت کو دوبارہ ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے کافی ثابت نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ پاکستان کو اس وقت جس چیز کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، وہ ٹھوس اور دیرپا ثابت ہونے والے انتظامی نوعیت کے اقتصادی فیصلے ہیں۔‘‘
مُوڈیز کی اس ماہر اقتصادیات کے مطابق، ''پاکستان کے لیے آئندہ کا اقتصادی سفر ناگزیر حد تک مشکل ہو گا اور توقع یہ ہے کہ ملک کی مالیاتی بچت کی متوقع پالیسی اگلے برس کے ابتدائی چند ماہ کے بعد تک بھی جاری رہے گی۔‘‘
پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ڈیل نہ ہو سکی
پاکستانی حکومت اور آئی ایم ایف کے ماہرین کے مابین کسی اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے جو مذاکرات دس روز تک جاری رہے تھے، وہ گزشتہ ہفتے تک غیر فیصلہ کن ہی رہے تھے اور پاکستان کا دورہ کرنے والا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا وفد واپس روانہ ہو گیا تھا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ نہیں ہو سکا
اس بات چیت کے بےنتیجہ رہنےکے بعد فریقین نے کہا تھا کہ یہ مذاکرات ابھی جاری رہیں گے۔ پاکستان کا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس جنوبی ایشیائی ملک کو پریشان کن اقتصادی بحران کاسامنا ہے اور اسے اس وقت مالی وسائل کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کے لیے یہ بات گہری تشویش کا باعث ہے کہ اس کے پاس اس وقت غیر ملکی زر مبادلہ کے جو ذخائر بچے ہیں، وہ اس ملک کی صرف 18 دنوں تک کی درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے ہی کافی ہو سکتے ہیں۔
شدید کساد بازاری
مُوڈیز کی سینیئر اقتصادی تجزیہ کار کاترینا اَیل نے روئٹرز کو بتایا، ''اگرچہ پاکستانی معیشت شدید حد تک کساد بازاری کا شکار ہے، اس کے باوجود افراط زر کی شرح غیر معمولی حد تک زیادہ ہے اور اس کے اسباب میں آئی ایم ایف کی طرف سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے رکھی گئی شرائط بھی شامل ہیں۔‘‘
پاکستان معاشی تباہی کے دہانے پر؟
پاکستان میں صارفین کی طرف سے اشیائے صرف کی خریداری کے لیے کی جانے والی ادائیگیوں کا کنزیومر پرائس انڈکس اس سال جنوری میں گزشتہ برس جنوری کے مقابلے میں بڑھ کر 27.5 فیصد ہو گیا تھا۔ یہ سالانہ بنیادوں پر اس انڈکس میں اضافے کی گزشتہ تقریباﹰ نصف صدی میں ریکارڈ کی جانے والی سب سے اونچی شرح تھی۔
م م / ش ر (روئٹرز)