آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کا تینتیسواں سب سے بڑا ملک پاکستان اپنے روڈ نیٹ ورک کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں اکیسویں نمبر پر ہے۔
اشتہار
پاکستان کی شاہراہیں - تصاویر
پاکستان کی شاہراہیں
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
پاک چین فرینڈشپ ہائی وے
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
اسلام آباد - لاہور موٹروے، جس پر جنگی طیارہ اتارنے کی مشق بھی کی گئی
تصویر: Defence.pk
جی ٹی روڈ
تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images
جی ٹی روڈ
تصویر: DW/I. Jabeen
پاک چین فرینڈشپ ہائی وے
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
اسلام آباد ہائی وے
تصویر: DW/I. Jabeen
قراقرم ہائی وے
تصویر: imago
لاہور کی ایک شاہراہ پر زیر تعمیر پُل
تصویر: DW/T.Shahzad
جی ٹی روڈ
قراقرم ہائی وے
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سمیت اس جنوبی ایشیائی ریاست کا مجموعی رقبہ آٹھ لاکھ بیاسی ہزار مربع کلومیٹر یا تین لاکھ اکتالیس ہزار مربع میل کے قریب بنتا ہے۔ شمال میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے سے لے کر جنوب میں بحیرہ عرب کے ساحلوں تک پھیلے ہوئے اس ملک میں پختہ سڑکوں، ہائی ویز، موٹر ویز اور ایکسپریس ویز پر مشتمل قومی روڈ نیٹ ورک کی مجموعی لمبائی تقریباﹰ دو لاکھ چونسٹھ ہزار کلو میٹر ہے۔
پاکستان میں اس کے ہمسایہ ملک چین کی مدد سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و توسیع کے پینتالیس ارب ڈالر سے زائد مالیت کے جس منصوبے پر کام جاری ہے، وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری یا چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کہلاتا ہے، جسے مختصراﹰ ’سی پیک‘ (CPEC) بھی کہتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ملک میں کئی نئی موٹر ویز اور قومی شاہراہیں بھی تعمیر کی جا رہی ہیں۔
آج سے چار عشرے قبل پاکستان میں وفاقی حکومت نے پانچ بہت اہم بین الصوبائی شاہراہوں کو وفاقی انتظام میں لے کر انہیں ’نیشل ہائی ویز‘ قرار دے دیا تھا، جن کی دیکھ بھال کے لیے ایک نیشنل ہائی وے بورڈ بھی قائم کر دیا گیا تھا۔ انیس سو اکانوے میں حکومت پاکستان نے پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا تو اس نئے ادارے کو نیشنل ہائی ویز کی منصوبہ بندی، تعمیر، دیکھ بھال اور مرمت کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ ساتھ ہی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور ملک کے شمالی علاقوں میں ان اہم شاہراہوں اور ہائی ویز سے متعلق تمام ذمے داریاں بھی اس این ایچ اے (NHA) کے حوالے کر دی گئیں۔
ہائی وے اتھارٹی اور ہائی وے کونسل
پاکستان میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کس طرح کام کرتی ہے اور اس کی کارکردگی کی نگرانی کون کرتا ہے؟ اس بارے میں اسلام آباد میں وفاقی وزارت مواصلات کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک میں ہائی ویز سے متعلق قومی پالیسیاں نیشنل ہائی وے کونسل طے کرتی ہے اور یہی کونسل نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا نگران ادارہ بھی ہے۔ این ایچ اے کے قیام کے قریب ایک عشرے بعد تک نیشنل ہائی وے کونسل کی صدارت ملکی وزیر اعظم کے پاس تھی، جو سن دو ہزار ایک میں قانونی ترامیم کے بعد وفاقی وزیر مواصلات کو منتقل کر دی گئی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا چیئرمین نیشنل ہائی وے کونسل کا رکن بھی ہوتا ہے۔
دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے متعلقہ امور سے گہری واقفیت رکھنے والے وفاقی وزارت مواصلات کے اعلیٰ ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں مجموعی قومی رقبے کے تناسب سے جدید موٹر ویز اور ہائی ویز کی شرح کافی کم ہے لیکن اس میں پچھلے چند برسوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ان ذرائع نے بتایا کہ پاکستان میں گزشتہ ایک چوتھائی صدی کے دوران قومی شاہراہوں کے نیٹ ورک میں توسیع کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور سی پیک منصوبے کے باعث مستقبل میں اس شعبے میں مزید بہتری آئی گی۔
پاکستانی روڈ نیٹ ورک کی شہ رگ
پاکستانی وزارت مواصلات کے ان اعلیٰ ذرائع کے مطابق نیشنل ہائی وے اتھارٹی اس وقت چالیس کے قریب قومی شاہراہوں، موٹر ویز، ایکسپریس ویز اور ’اسٹریٹیجک روٹ‘ قرار دی گئی قومی سڑکوں کا منتظم ادارہ ہے۔ ان سرکاری ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان کے قومی روڈ نیٹ ورک کا تقریباﹰ پانچ فیصد حصہ این ایچ اے کے انتظام میں ہے اور ملک میں کمرشل ٹریفک کا 80 فیصد حصہ انہی پانچ فیصد سڑکوں سے گزرتا ہے۔ اس کے علاوہ N-5 کہلانے والی نیشنل ہائی وے کو تو پاکستانی روڈ نیٹ ورک کی شہ رگ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ پورے ملک میں کمرشل ٹریفک کا 65 فیصد حصہ اسی ایک قومی شاہراہ سے گزرتا ہے۔‘‘
این فائیو کہلانے والی پاکستان کی پانچویں قومی شاہراہ صوبہ سندھ کے بندرگاہی شہر کراچی سے شروع ہو کر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں طورخم تک جاتی ہے، جہاں ایک بہت مصروف سرحدی گزرگاہ پاکستان کو افغانستان سے ملاتی ہے۔ افغانستان کے لیے تجارتی سامان لے کر جانے والے لاکھوں ٹرک اور ٹرالر بھی زیادہ تر یہی پاکستانی ہائے وے استعمال کرتے ہیں۔
رقبے کے لحاظ سے سڑکوں کا تناسب
پاکستان کے کل ریاستی رقبے کو مد نظر رکھا جائے تو شماریاتی حوالے سے سن دو ہزار سولہ تک ملک میں اوسطاﹰ ہر ایک مربع کلومیٹر علاقے میں 0.3 کلومیٹر طویل کوئی نہ کوئی سڑک موجود تھی۔ لیکن اگر نیشنل ہائی ویز کے لیے استعمال شدہ علاقے اور مجموعی قومی رقبے کو دیکھا جائے تو دو سال پہلے پاکستانی ریاست کے ہر ایک مربع کلومیٹر علاقے میں اوسطاﹰ 0.015 کلومیٹر طویل موٹر ویز یا قومی شاہراہیں موجود تھیں۔
پاکستانی ہائی ویز کی کل لمبائی
پاکستانی روڈ نیٹ ورک کا اگر قریب پانچ فیصد حصہ بھی موٹر ویز اور ہائی ویز پر مشتمل ہے، تو اس کی کل طوالت کتنی ہے؟ یہ سوال ڈوئچے ویلے نے پوچھا کاشف زمان سے، جو وفاقی وزارت مواصلات اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی دونوں کے سرکاری ترجمان اور میڈیا افیئرز کے ٖڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے ایک تفصیلی انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’این ایچ اے کے زیر انتظام قومی شاہراہوں اور موٹر ویز کی لمبائی تقریباﹰ تیرہ ہزار کلومیٹر ہے۔ ان میں سے نوتعمیر شدہ موٹر ویز کی طوالت چھ سو کلومیٹر بنتی ہے جب کہ اٹھارہ سو کلومیٹر طویل موٹر ویز زیر تعمیر ہیں۔ یہ کئی مختلف منصوبے ہیں، جو اگلے دو برسوں میں مکمل ہو جائیں گے۔ ان میں سے بھی کچھ پروجیکٹ سن دو ہزار اٹھارہ میں مکمل ہو جائیں گے اور کچھ دو ہزار انیس میں۔‘‘
پشاور: دہشت گردی میں کمی سے فوڈ انڈسٹری اور سیاحت میں ترقی
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے لیے 2015ء کے مقابلے میں 2016ء بہتر سال ثابت ہوا۔ گزشتہ برس پشاور میں دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی تو تجارتی مراکز، فوڈ انڈسٹری اور سیاحت کے شعبوں میں بھی غیر معمولی ترقی دیکھنے میں آئی۔
تصویر: Danish Baber
پشاور میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری
پشاور گزشتہ قریب دو دہائیوں سے دہشت گردی کی وجہ سے کافی متاثر ہوتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے شہروں کے مقابلے میں یہ شہر ہر میدان میں پیچھے رہ گیا تھا۔ اب لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ اب پشاور میں ملکی اداروں کے علاوہ بین الاقوامی ادارے بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
دہشت گردانہ حملوں میں واضح کمی
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2016ء میں ملک بھر میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کے بہت کم واقعات پیش آئے، جس کی وجہ شمال مغربی قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن ضرب عضب کو قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Danish Baber
حالات میں بہتری کا مثبت کاروباری نتیجہ
حالات بہتر ہوتے ہی اپنی خوش خوراکی اور مہمان نوازی کی وجہ سے مشہور پشاور کے شہریوں کی دلچسپی کے پیش نظر مقامی مارکیٹوں میں ملکی اور بین الاقوامی فوڈ کمپنیوں نے اپنی فرنچائزڈ شاخیں کھول دیں۔
تصویر: Danish Baber
’ٹرکش ڈونر ہاؤس‘ بھی پشاور میں
ترکی کے مشہور ’ٹرکش ڈونر ہاؤس‘ کو دسمبر 2016ء میں پشاور میں متعارف کرانے والے احسان اللہ کہتے ہیں کہ ایک ماہ کی قلیل مدت میں ان کے فوڈ ہاؤس میں ہر روز لوگوں کا ہجوم لگا رہنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شہر کے شدت پسندی سے متاثرہ عوام تفریح چاہتے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
’چائے خانہ‘ میں ستّر اقسام کی چائے
اس تصویر میں اسد علی نامی شہری اپنے دوستوں کے ساتھ ’چائے خانہ‘ میں بیٹھے ہیں۔ ان کے بقول پشاور میں ’چائے خانہ‘ جیسی جگہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ صرف ایک ماہ تک پہلے صارفین ’ستّر اقسام کی چائے کے لیے مشہور‘ اس کیفے کے ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے اسلام آباد تک کا سفر کرتے تھے لیکن اب انہیں یہ سہولت پشاور ہی میں دستیاب ہے۔
تصویر: Danish Baber
کراچی کا فوڈ برانڈ تئیس ملکوں میں
’باربی کیو ٹونائٹ‘ کے نام سے مشہور کراچی کے اس فوڈ برانڈ کی پاکستان کےعلاوہ بھی بائیس ممالک میں شاخیں ہیں۔ کشیدہ حالات کی وجہ سے پشاور میں ’باربی کیو ٹونائٹ‘ کا آغاز کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ اس برانڈ کی پشاور فرنچائز کے مالک کے مطابق خیبر پختونخوا میں اشیائے خوراک اور ریستورانوں کے شعبوں میں محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Danish Baber
نئے ریستوراں ایک منافع بخش کاروبار
پشاور کے لوگوں عام طور پر دیسی کھانوں مثلاﹰ چپلی کباب اور مٹن کڑاہی کے دلدادہ تصور کیے جاتے ہیں تاہم مختلف فاسٹ فوڈ ریستورانوں پر لوگوں کے ہجوم اور آئے دن نئے مشہور ریستورانوں کا کھلنا اس امر کے اشارے ہیں کہ مقامی اور علاقائی طور پر فاسٹ فوڈ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: Danish Baber
سولہ پاکستانی شہروں میں چوالیس میکڈونلڈز
امریکی فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈز کا دنیا بھر میں ایک بہت بڑا کاروباری نیٹ ورک ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد سمیت پاکستان کے سولہ بڑے شہروں میں اس ریستوران کی چوالیس فرنچائزڈ شاخیں قائم ہیں۔ میکڈونلڈز نے گزشتہ برس پشاور میں اپنے قدم جمائے اور بہت تھوڑے عرصے میں ریکارڈ کاروبار کیا۔ عوامی دلچسپی کے پیش نظر اس سال پشاور میں میکڈونلڈز کی ایک اور شاخ بھی کھولی جا رہی ہے۔
تصویر: Danish Baber
’نان سنس‘ جو کوئی ’نان سنس‘ نہیں
گوکہ ٹرک آرٹ سے سجایا گیا ’نان سنس‘ پشاور کا ایک مقامی ریستوراں خیال کیا جاتا ہے تام دلکش بناوٹ اور مختلف فوڈ آئٹمز کے عجیب و غریب اور مزاحیہ نام لوگوں کو اس ریستوراں کی طرف راغب کرتے ہیں۔ اس چھوٹے سے ریستوراں میں آ کر مہمان کچھ دیر کے لیے اپنی ذہنی پریشانیاں بھول جاتے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
آسٹریلین ’کون ہیڈز‘ بھی اب پشاور میں
آسٹریلوی برانڈ ’کون ہیڈز‘ میں آئے ہوئے نعمان خان کہتے ہیں کہ کم ہی عرصے میں وہ پشاور میں ایک غیر معمولی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ ’’اب ہم پشاور میں رات گئے تک ملکی اور بین الاقوامی ریستورانوں میں بیٹھ کر اپنی مرضی کے کھانے کھا سکتے ہیں۔ پہلے نہ تو حالات اچھے تھے اور نہ ہی ہمارے پاس انتخاب کا امکان اتنا زیادہ تھا۔‘‘
تصویر: Danish Baber
آسٹریلوی کافی ہاؤس ’گلوریا جینز‘
گلوریا جینز کے نام سے مشہور آسٹریلین کافی شاپ کی خیبر پختونخوا آمد کے بارے میں اس کمپنی کی ایک فرنچائز کے مالک احسان اللہ کا کہنا ہےکہ پشاور کے لوگ عرصہ دراز سے گھروں میں محصور تھے اور ان کے لیے روایتی کھانوں سے ہٹ کر ایک نئے ذائقے کی ضرورت تھی، جو گلوریا جینز نے ان کو فراہم کیا۔ ’’لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اس لیے ہم بھی ابھی تک یہاں ہیں۔‘‘
تصویر: Danish Baber
سرمایہ کاری کے لیے پرکشش معاہدے
پشاور میں ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عربی کے بقول صوبائی دارالحکومت میں بین الاقوامی فوڈ انڈسٹری کی طرف سے سرمایہ کاری اس خطے میں امن و امان کی بڑی نشانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبائی انتظامیہ کی طرف سے اچھے معاہدوں اور سرمایہ کاری کے بہتر ماحول کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ اب پشاور کا رخ کر رہے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
’باب پشاور‘ جو اب ’سیلفی برج‘ بن چکا ہے
سال 2016ء میں انتہائی تیز رفتاری سے چھ ماہ کے قلیل عرصے میں مکمل کیے گئے اس کثیر المنزلہ پل کو ’باب پشاور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کشیدہ حالات کے ستائے خیبر پختونخوا کے عوام اس پل کو بھی کسی تفریحی مقام سے کم نہیں سمجھتے۔ دن رات وہاں لوگوں کے رش اور تصاویر بنانے کے شوق کی وجہ سے اس پل کو مقامی لوگ ’سیلفی برِج‘ کہنے لگے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
پشاور میں صفائی کا سال
ماضی میں پھولوں کا شہر کہلانے والے پشاور کو ایک بار پھر پھولوں کا شہر بنانے کے لیے صوبائی حکومت نے سال 2017ء کو صفائی کا سال قرار دیا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کی طرح پشاور کو گندگی سے بھی پاک کر دینے کے لیے ’گلونہ پیخور‘ کے نام سے شہر کی صفائی کی مہم شروع کی گئی ہے، جس میں شہری بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
14 تصاویر1 | 14
موٹر ویز کے میگا پروجیکٹ
پاکستان میں اس وقت موٹر ویز کی تعمیر کے کن بہت ہی بڑے بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے، اس سوال کے جواب میں کاشف زمان نے کہا، ’’ہمارے میگا پروجیکٹس میں گجرات سے گوارد تک کئی منصوبے شامل ہیں۔ سکھر ملتان موٹر وے بہت طویل ہے۔ لاہور سے ملتان تک دو سو تیس کلومیٹر موٹر وے بھی زیر تعمیر ہے اور حویلیاں خانپور دو سو بیس کلو میٹر طویل شاہراہ پر بھی کام جاری ہے۔ کراچی سے حیدر آباد تک موٹر وے تقریباﹰ مکمل ہو گئی ہے۔ اس مہینے یعنی جنوری میں ہی اس کا افتتاح بھی ہو جائے گا۔ یہ موٹر وے ایک سو چھتیس کلومیٹر طویل ہے۔ اس کے علاوہ فیصل آباد سے ملتان تک موٹر وے بھی زیر تعمیر ہے، جس کے لیے فنڈنگ ایشیائی ترقیاتی بینک نے کی ہے۔ یہ موٹر وے بھی اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گی۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے این ایچ اے کے ترجمان سے جب یہ پوچھا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا رواں مالی سال کے لیے کل بجٹ کتنا ہے، تو انہوں نے بتایا، ’’ہمیں موجودہ سال کے لیے جو بجٹ جاری ہوا، اس کی مالیت 300 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ ہائی اتھارٹی اس وقت جن منصوبوں پر کام کر رہی ہے، ان کی مالیت 1400 ارب روپے بنتی ہے۔‘‘ یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک دہائی قبل اس اتھارٹی کا سالانہ بجٹ قریب 50 ارب روپے ہوتا تھا، جو اب چھ گنا ہو کر 300 ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔
دنیا کی دس سب سے بڑی فوجیں
آج کی دنیا میں محض فوجیوں کی تعداد ہی کسی ملک کی فوج کے طاقتور ہونے کی نشاندہی نہیں کرتی، بھلے اس کی اپنی اہمیت ضرور ہے۔ تعداد کے حوالے سے دنیا کی دس بڑی فوجوں کے بارے میں جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
چین
سن 1927 میں قائم کی گئی چین کی ’پیپلز لبریشن آرمی‘ کے فوجیوں کی تعداد 2015 کے ورلڈ بینک ڈیٹا کے مطابق 2.8 ملین سے زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز ’’آئی آئی ایس ایس‘‘ کے مطابق چین دفاع پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ (145 بلین ڈالر) خرچ کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/Xinhua
بھارت
بھارت کی افوج، پیرا ملٹری اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ایسے اہلکار، جو ملکی دفاع کے لیے فوری طور پر دستیاب ہیں، کی تعداد بھی تقریبا اٹھائیس لاکھ بنتی ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ اکاون بلین ڈالر سے زائد ہے اور وہ اس اعتبار سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters
روس
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق روسی فیڈریشن قریب پندرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے تاہم سن 2017 میں شائع ہونے والی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق روسی فوج کے فعال ارکان کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب بنتی ہے اور وہ قریب ساٹھ بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
شمالی کوریا
شمالی کوریا کے فعال فوجیوں کی مجموعی تعداد تقربیا تیرہ لاکھ اسی ہزار بنتی ہے اور یوں وہ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Wong Maye-E
امریکا
آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق 605 بلین ڈالر دفاعی بجٹ کے ساتھ امریکا سرفہرست ہے اور امریکی دفاعی بجٹ کی مجموعی مالیت اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ تاہم ساڑھے تیرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ وہ تعداد کے حوالے سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
پاکستان
پاکستانی فوج تعداد کے حوالے سے دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستانی افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دیگر ایسے سکیورٹی اہلکاروں کی، جو ملکی دفاع کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہیں، مجموعی تعداد نو لاکھ پینتیس ہزار بنتی ہے۔ آئی آئی ایس ایس کے مطابق تاہم فعال پاکستانی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے کچھ زائد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
مصر
ورلڈ بینک کے مطابق مصر آٹھ لاکھ پینتیس ہزار فعال فوجیوں کے ساتھ اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تاہم آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں مصر کا دسواں نمبر بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
برازیل
جنوبی امریکی ملک برازیل سات لاکھ تیس ہزار فوجیوں کے ساتھ تعداد کے اعتبار سے عالمی سطح پر آٹھویں بڑی فوج ہے۔ جب کہ آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں برازیل کا پندرھواں نمبر ہے جب کہ ساڑھے تئیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ وہ اس فہرست میں بھی بارہویں نمبر پر موجود ہے۔
تصویر: Reuters/R. Moraes
انڈونیشیا
انڈونیشین افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دفاعی سکیورٹی کے لیے فعال فوجیوں کی تعداد پونے سات لاکھ ہے اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R.Gacad
جنوبی کوریا
دنیا کی دسویں بڑی فوج جنوبی کوریا کی ہے۔ ورلڈ بینک کے سن 2015 تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس کے فعال فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ چونتیس ہزار بنتی ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق قریب چونتیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ جنوبی کوریا اس فہرست میں بھی دسویں نمبر پر ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کی طویل ترین قومی شاہراہ کون سی ہے، کاشف زمان نے کہا، ’’بہت پرانی شاہراہوں میں سے گرینڈ ٹرنک یا جی ٹی روڈ قریب بارہ سو کلومیٹر طویل ہے۔ جو موٹر ویز اس وقت استعمال ہو رہی ہیں، ان میں سے لاہور اسلام آباد موٹر وے کی لمبائی تین سو اسی کلومیٹر ہے۔ اس کے علاوہ اگر مختلف حصوں کو شامل کیا جائے تو این فائیو کہلانے والی نیشنل ہائی وے نمبر پانچ 1819 کلومیٹر طویل ہے۔‘‘ کراچی سے طورخم تک یہ ہائی وے ملک کے جنوب کا شمالی پاکستان سے اہم ترین زمینی رابطہ ہے۔
جنوبی ایشیا سے موازنہ
اپنے ہائی ویز نیٹ ورک کے ساتھ پاکستان اس وقت جنوبی ایشیا میں کس مقام پر ہے، اس بارے میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان میں چوبیس سو کلومیٹر طویل جو موٹر ویز زیر تعمیر ہیں، وہ اگلے سال کے آخر تک مکمل بھی ہو جائیں گی۔ اس سے بڑا موٹر وے نیٹ ورک جنوبی ایشیا میں فی الحال کسی بھی دوسرے ملک کے پاس نہیں۔‘‘ دو ہزار پندرہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کے روڈ نیٹ ورک کی لمبائی پچپن لاکھ کلومیٹر تھی لیکن بھارت کے ہائی ویز کی لمبائی پاکستان سے کم بنتی تھی۔
پاکستانی وزارت مواصلات، پلاننگ ڈویژن اور وزارت خزانہ کے حکام کے علاوہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا بھی کہنا ہے کہ ملک میں شاہراہوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے فنڈز ابھی تک ناکافی ہیں، جس میں نجی شعبے کو بھی اپنا کام کرنا ہو گا۔ کاشف زمان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’نجی شعبے کا تعاون ایک ایسا شعبہ ہے، جس پر ہمیں ابھی مزید کام کرنا ہے۔ این ایچ اے کئی پروجیکٹس پر پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں توسیع ضروری ہے۔‘‘
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ملک اپنے ہاں موٹر ویز نیٹ ورک کو اس لیے ترقی دے رہا ہے کہ علاقائی سطح پر زمینی رابطے بہتر بنائیں جائیں۔ کاشف زمان کے بقول، ’’موٹر ویز نیٹ ورک بڑا اور مضبوط ہو گا تو ہمسایہ ممالک، جن میں چین اور افغانستان بھی شامل ہیں، سے مزید بہتر تعلقات استوار ہو سکیں گے اور وسطی ایشیا تک رسائی بھی ممکن ہو سکے گی۔‘‘
روپیہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ کئی اور ممالک کی کرنسی بھی ہے۔ تاہم ان میں ہر ایک ملک کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مختلف ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کن ممالک میں روپیہ زیر گردش ہے۔
تصویر: Fotolia/Unclesam
پاکستان
برصغیر کی تقسیم کے فوری بعد پاکستان نے برطانوی دور کے نوٹ اور سکے ہی استعمال کیے، صرف ان پر پاکستان کی مہر لگا دی گئی۔ تاہم 1948سے پاکستان میں نئے نوٹ اور سکے بننے لگے۔ پاکستانی نوٹوں پر میں ملک کے بانی محمد علی جناح کی تصویر چھپی ہوتی ہے۔
تصویر: AP
بھارت
روپیہ سنسکرت کے لفظ روپيكم سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چاندی کا سکہ۔ روپے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل انگریز حکومت کے روپیہ کے علاوہ کئی ریاستوں کی اپنی کرنسیاں بھی تھیں۔ لیکن 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد روپے کو پورے ملک میں بطور کرنسی لاگو کر دیا گیا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
سری لنکا
سری لنکا کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہی ہے۔ 1825میں برطانوی پاؤنڈ سری لنکا کی سرکاری کرنسی بنا۔ اس سے پہلے وہاں سيلونيج ركسڈلر نام کی کرنسی چلتی تھی۔ انگریز دور میں کئی دہائیوں تک برطانوی پاؤنڈ سری لنکا کی کرنسی بنا رہا جسے اس وقت سیلون کہا جاتا تھا۔ لیکن یکم جنوری 1872 کو وہاں روپیہ سرکاری کرنسی کے طور پر اپنایا گیا۔
بھارت کے پڑوسی ملک نیپال کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہے جو 1932 سے زیر استعمال ہے۔ اس سے پہلے وہاں چاندی کے سکے چلتے تھے۔ نیپال میں سب سے بڑا نوٹ ایک ہزار روپے کا ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
ماریشس
ماریشس میں پہلی بار 1877 میں نوٹ چھاپے گئے تھے۔ شروع میں وہاں پانچ، دس اور 50 روپے کے نوٹ چھاپے گئے۔ تاہم 1919 سے ایک روپے کے نوٹ بھی چھاپے جانے لگے۔ ماریشس میں بڑی تعداد میں ہندوستانی نژاد لوگ آباد ہیں۔ اسی لیے کسی بھی نوٹ پر اس کی قیمت بھوجپوری اور تامل زبان میں بھی درج ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto
انڈونیشیا
انڈونیشیا کی کرنسی رُپياه ہے جس کا اصل روپیہ ہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے کم قدر ہونے کی وجہ سے انڈونیشیا میں بڑی مالیت کے نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ وہاں سب سے بڑا نوٹ ایک لاکھ رپياه کا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Indahono
سیشیلز
بحر ہند کے ایک جزیرے پر مشتمل ملک سیشیلز کی کرنسی بھی روپیہ ہی ہے۔ وہاں سب سے پہلے روپے کے نوٹ اور سکے 1914میں چھاپے گئے تھے۔ سیشیلز بھی پہلے برطانوی سلطنت کے تابع تھا۔ 1976میں اسے آزادی ملی۔ سمندر میں بسا یہ ملک اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔