پاکستان: ریڑھ کی ہڈیوں کا پانی نکالنے والا گروہ پکڑا گیا
شمشیر حیدر اے ایف پی
13 فروری 2018
پاکستانی پولیس نے انسانی جانوں سے کھیلنے والے ایک ایسے گروہ کو گرفتار کر لیا ہے جو مریضوں کو دھوکا دے کر ان کی ریڑھ کی ہڈیوں سے پانی نکال لیتا تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی حکام نے مریضوں کو دھوکا دے کر ان کی ریڑھ کی ہڈی کا پانی نکال لینے والے اس جرائم پیشہ گروہ کے پانچ ارکان کو پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے گرفتار کیا ہے۔ پاکستان میں انسانی جانوں سے کھیلتے ہوئے دھوکے سے مریضوں کے اعضا چوری کر کے طب کی مقامی بلیک مارکیٹ میں فروخت کیے جانے کے ایسے واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں۔
پولیس کے مطابق اس گروہ کے مشتبہ ارکان کی گرفتاری ان کا نشانہ بننے والی ایک خاتون کے رشتہ دار کی جانب سے دی گئی اطلاع کے بعد عمل میں آئی۔ جرائم پیشہ گروہ کے یہ ارکان اپنے متاثرین کو مفت جہیز دینے کا لالچ دے کر انہیں بتاتے تھے کہ اس پروگرام میں شرکت کے بعد مفت جہیز کی فراہمی اس عمل سے گزارے جانے سے مشروط ہے۔
محرومی کے باوجود حب الوطنی کم نہیں
پاکستان کی قریب بیس کروڑ کی آبادی میں اکثریت سماجی، تعلیمی، اقتصادی اور مالی طور پر محروم طبقات کی ہے، لیکن اس محرومی کے باوجود پاکستان کے ان کروڑوں شہریوں میں حب الوطنی کی کوئی کمی نہیں۔ چند تصویری شواہد:
تصویر: DW/I. Jabeen
پاکستان اقلیتوں کا بھی
پاکستان میں ہر سال جشن آزادی منانے والے شہریوں میں اکثریتی آبادی کے ساتھ ساتھ تمام اقلیتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ کوئی بھی شہری چاہے وہ مسلم، ہندو، مسیحی یا سکھ ہو، کسی دوسرے سے کم نہیں۔ اسلام آباد میں لی گئی اس تصویر کی ایک خاص بات تو سٹال کے مالک کی حب الوطنی کی مظہر سبز سفید پگڑی ہے اور دوسری وہ مسکراہٹ جو اس کے ہم وطن ایک مسلم گاہک کے چہرے پر قومی پرچم خریدتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ہر کسی کے ہاتھ میں پرچم
اگست کے شروع کے دو ہفتوں کے دوران پاکستان میں ہر سال قومی پرچم اور اس کے سبز اور سفید رنگ پورے ملک میں سب سے زیادہ نظر آنے والے رنگ بن جاتے ہیں۔ اس موقع پر گلی کوچوں، بازاروں، دکانوں، گاڑیوں اور گھروں پر، ہر جگہ سبز ہلالی پرچم لہراتا نظر آتا ہے۔ اس تصویر میں اسلام آباد کے رہائشی تین نوجوان دکھائی دے رہے ہیں، جو آپس میں دوست ہیں اور جن میں سے ہر ایک نے اپنے ہاتھ میں پاکستانی پرچم پکڑا ہوا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
یوم آزادی عید سے کم نہیں
راولپنڈی کے رہنے والے اس پندرہ سالہ لڑکے کا نام شکیل احمد ہے۔ اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہر سال یوم آزادی کا ایسے انتظار کرتا ہے، جیسے کوئی عید کا۔ شکیل نے کہا، ’’ہمارے لیے تو یہ عید ہی ہوتی ہے۔ جشنِ آزادی مناتے ہوئے ہم جھنڈے، جھنڈیاں، چھوٹے پٹاخے اور دیگرسامان بیچتے ہیں، تو ہمارے بھی چار پیسے بن جاتے ہیں۔ گھر والے بھی خوش ہو جاتے ہیں کہ جشن آزادی مناتے ہوئے کچھ آمدنی بھی ہو جاتی ہے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
دکاندار اور خریدار بچے
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے لگائے گئے اس عارضی سٹال پر ایک کم عمر لڑکا نظر آ رہا ہے، جو اس سٹال پر کام کرتا ہے اور باقی تین بچے وہ کم سن گاہک ہیں، جو پاکستانی پرچم کے رنگوں والے چہرے کے ماسک اور ہیٹ لینے آئے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سوالیہ نظریں، افسوسناک منظر
اسلام آباد میں نائنتھ ایوینیو پر ابنِ سینا چوک میں ایک ٹریفک سگنل کے قریب کھڑی یہ معصوم بچی تیرہ اگست کو سارا دن گرمی، دھوپ یا بارش کی پرواہ کیے بغیر وہاں سے گزرنے والے ڈرائیوروں کو چھوٹے چھوٹے قومی پرچم بیچنے کی کوشش کرتی رہی۔ اسکول کے بجائے ایک گندہ فٹ پاتھ، اس عمر میں تعلیم کے بجائے مشقت، اس بچی کا سوال ہونٹوں پر نہیں بلکہ آنکھوں میں ہے: ’’کیا کوئی قوم اپنے بچوں کی پرورش ایسے بھی کرتی ہے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کوئی پیچھے نہیں
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں عام دکانداروں کے علاوہ خوانچہ فروش بھی وطن سے محبت کے اظہار میں کسی سے پیچھے نہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’کمائی پر پولیس والوں کی نظر‘
اس تصویر میں نظر آنے والے نوجوان کا نام حسین شاہ ہے، جس نے اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی مختلف سائز کے پاکستانی جھنڈے اور دوسرا سامان فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔ حسین شاہ نے، جس کے لہجے میں تلخی واضح تھی، بتایا، ’’ہم کون سی آزادی منائیں؟ دس سال پہلے بھی جو دال روٹی کھاتے تھے، وہی آج بھی کھا رہے ہیں۔ یہ مال فروخت کر جو تھورے سے پیسے کماتے ہیں، ان پر بھی پولیس والوں کی نظر ہوتی ہے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
7 تصاویر1 | 7
بعد ازاں انسانوں کی ریڑھ کی ہڈیوں سے نکالا گیا یہ مائع طب کی مقامی بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا تھا جسے ’بون میرو ٹرانسپلانٹ‘ کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ آباد پولیس کے تفتیشی افسر عبدالمجید کا کہنا تھا، ’’گرفتار کیے گئے افراد نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں کم از کم دس خواتین کی ریڑھ کی ہڈیوں سے مائع نکالا جسے مقامی سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والے ایک خاکروب کو فروخت کر دیا گیا۔ اس شخص کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔‘‘
محمد عمران نامی ایک اور پولیس اہلکار نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ اس ضمن میں تفتیشی عمل جاری ہے۔
ایک مقامی اخبار روزنامہ جنگ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس گروہ نے کم از کم نوے خواتین کی ریڑھ کی ہڈیوں سے پانی نکالا جن میں سے کئی مفلوج ہو چکی ہیں۔
پاکستان گردوں کے ٹرانسپلانٹ کے غیر قانونی کاروبار کے حوالے سے بدنام ہے اور کئی غیر ملکی ایسے علاج کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ گزشتہ برس پاکستانی حکام نے دو عمانی باشندوں کا غیر قانونی ’کڈنی ٹرانسپلانٹ‘ آپریشن کرنے کے الزام میں طب سے وابستہ جرائم پیشہ گروہ کے کچھ ارکان کو گرفتار کیا تھا۔
پاکستانی قوانین کے مطابق انسانی اعضا کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے اور علاج کے لیے مریض کے قریبی رشتہ دار ہی اعضا کا عطیہ کر سکتے ہیں۔