1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج

3 دسمبر 2024

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج سے متعلق سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سمیت 94 افراد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔

عمران خان کے پوسٹر
عمران خان مختلف مقدمات کے سلسلے میں گزشتہ کئی ماہ سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اب وہ پاکستان کے ایسے دوسرے سابق وزیر اعظم بن گئے ہیں، جن پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران سری نگر ہائی وے پر تیز رفتار گاڑی کی زد میں آکر نیم فوجی دستے کے اہلکاروں کی ہلاکت کے سلسلے میں سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے اس احتجاج کو "حتمی کال" کا نام دیا تھا، جو 26 نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر ہوا۔ مظاہرے کے دوران پی ٹی آئی کے حامیوں نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے دارالحکومت کی طرف بڑے پیمانے پر مارچ شروع کیا تھا۔

تحریک انصاف کے بانی عمران خان مختلف مقدمات کے سلسلے میں گزشتہ کئی ماہ سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اب وہ پاکستان کے ایسے دوسرے سابق وزیر اعظم بن گئے ہیں، جن پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پراپیگنڈا مہم کے خلاف ٹاسک فورس، ’حکومت مدعی بھی منصف بھی‘

واضح رہے کہ نومبر 1974میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، جن کی حکومت کا تختہ فوجی آمر ضیاءالحق نے الٹ دیا تھا اور پھر اس کے تقریبا دو برس بعد قتل کے مقدمے کے نتیجے میں سن 1977 میں انہیں پھانسی دے دی گئی تھی۔

عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف نئے الزامات

الزامات کیا ہے؟

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اور بعض دیگر رہنماؤں کے خلاف یہ مقدمات رمنا پولیس اسٹیشن میں درج کیے گئے ہیں، جس میں دفعہ 302 (قتل)، دفعہ 324 (قتل کی کوشش) اور دہشت گردی کے الزامات سمیت سیکشن 120 بی (مجرمانہ سازش کرنے) جیسے متعدد دفعات کو شامل کیا گیا ہے۔

پولیس حکام نے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے کہنے پر لینڈ کروزر کے ایک نامعلوم ڈرائیور نے رینجرز اہلکاروں کو مارنے کی نیت سے انہیں ٹکر مار دی، جس کے نتیجے میں تین اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔

پی ٹی آئی میں اختلافات: بشریٰ بی بی کا کنٹرول یا کچھ اور؟

حکومت پاکستان نے عمران خان کی رہائی کے لیے ہونے والے احتجاجی مظاہرے کو ناکام بنانے کے لیے سخت انتظامات کیے تھے اور بہت بڑی تعداد میں فورسز کو تعینات کیا تھا تصویر: Aamir Qureshi/AFP

پاکستان کے معروف میڈيا ادارے ڈان نے پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع اور نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بعض وکلاء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے بقول "یہ قتل کا نہیں بلکہ سڑک حادثے کا معاملہ ہے" اور ایف آئی آر دفعہ 302 کے بجائے دفعہ 322 کے تحت درج ہونی چاہیے تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ اموات بے احتیاطی اور لاپرواہی سے ڈرائیونگ کی وجہ سے ہوئیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کچھ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ڈرائیور منشیات کے زیر اثر تھا اور اگر یہ سچ ہے تو پھر دفعہ 322 کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے۔

جون 2023 میں بھی بلوچستان پولیس نے عمران خان کے خلاف ایڈووکیٹ عبدالرزاق کے قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔ تاہم اگست 2023 میں انہیں اس کیس سے بری کر دیا گیا تھا۔

’اسلام آباد سے واپس جا کر بھی پی ٹی آئی خاموش نہیں بیٹھے گی‘

اے ٹی سی کی جانب سے غیر ضمانتی وارنٹ

ادھر ایک دوسری پیش رفت میں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج سے متعلق ہی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نیز دیگر 94 افراد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔

احتجاج سے متعلق کیس میں پولیس نے 96 مشتبہ افراد کی فہرست عدالت میں جمع کرائی تھی، جس میں سابق صدر عارف علوی، سابق اسپیکر اسد قیصر، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔

اس مقدمے میں تمام افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت اشتعال انگیزی، بدامنی اور دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کا احتجاج ختم، ٹریفک بحال ہونا شروع

اے ٹی سی نے جن تقریبا سو افراد کے خلاف ناقابل ضمانت گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے، اس میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور، حزب اختلاف کے رہنما عمر ایوب، شیر افضل مروت، خالد خورشید، فیصل جاوید، ایم این ایس عبداللطیف، فتح ملک، علی ناصر اور صوبائی وزیر ریاض خان بھی شامل ہیں۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کے جج نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے احتجاج سے متعلق کیس میں ملوث تمام 96 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد پی ٹی آئی کا دھرنا ختم

02:44

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں