پاکستان: سالانہ ہزاروں ’ناجائز بچوں‘ کا خفیہ قتل
27 اپریل 2014صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں کے ایک میٹرنٹی ہوم میں کام کرنے والی نرس رضیہ الیاس ( نام تبدیل کر دیا گیا ہے) کہتی ہیں، ’’میں نے اب نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کی ماؤں کو خود انہیں مارنا چاہیے۔ کسی کے گناہوں کا بوجھ میں کیوں اٹھاؤں؟‘‘
آپ تصور کریں ایک بچہ ابھی پیدا ہی ہوا ہے۔ کسی کو بھی یہ فکر نہیں ہے کہ اسے نہلانا ہے۔ جسم پر ابھی خون کے نشانات باقی ہیں، بے ترتیب بال آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ناف کی نالی بھی بس کاٹ کر چھوڑ دی گئی ہے۔ ماں کے سینے میں دودھ اتر چکا ہے، روتے ہوئے بچے کی چیخیں ماں کے دل کو چیرتی جا رہی ہیں۔ ان دیکھے خوف اور محبت کی وجہ سے اس کے آنکھوں کا کاجل اور آنسو دوپٹے پر گرتے ہوئے خودکشی کرتے جا رہے ہیں۔ تین کلوگرام کے اس بچے کو ہاتھ کی ہتھیلی میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ ماں کے لرزتے اور کانپتے ہاتھ بچے کے نرم اور نازک گلے تک پہنچتے ہیں۔ تہذیب یافتہ دنیا میں آنے والے اس بچے کی شہہ رگ پر ہلکا سا دباؤ پڑتا ہے۔ تیس منٹ کے بعد بچے کے رونے کی سکت پہلے ہی کم ہو چکی ہے۔ شہ رگ پر انگوٹھے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، کمزور آواز بند ہوتی جا رہی ہے، بچے کا جسم نیلا ہو چکا ہے۔ تقریبا 45 منٹ پہلے اس دنیا میں آنے والا بچے کی روح پرواز کر چکی ہے۔ نرس بچے کی دل کی دھڑکن محسوس کیے بغیر اسے ایک پلاسٹک کے بیگ میں بند کرتی ہے۔ شاید ابھی یہ بچہ زندہ ہو ؟ لیکن یہ دیکھے بغیر اسے رات کی تاریکی میں کوڑے کے کسی ڈھیر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ لڑکی کسی کا سہارا لے کر لرزتے قدموں کے ساتھ کلینک سے باہر نکل جاتی ہے۔ خطرہ ہے کہ کوئی پہچان نہ لے۔ چند گھنٹے پہلے ماں بننے والی لڑکی نے پردہ کر رکھا ہے۔ اس لڑکی کو نہ تو اونچی آواز میں رونے کی اجازت ہے اور نہ ہی یہ واقعہ کسی اور کو بتانے کی۔ آج رات پھر کسی خاندان کی عزت بچا لی گئی ہے۔ اگر آج پیدا ہونے والے بچے کو قتل نہ کیا جاتا تو شاید اس کی ماں ہی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑ جاتے۔
نرس رضیہ کہتی ہے کہ پاکستان میں ’’روزانہ ایسے سینکڑوں واقعات‘‘ رونما ہوتے ہیں۔ رضیہ فوری طور پر اس واقعے کے بارے میں بتاتی ہے، جو ابھی کچھ ہی دن پہلے ہی پیش آیا ہے، ’’لڑکی آٹھ ماہ سے حاملہ تھی۔ ہم اس کا کیس نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اس کے خاندان نے ہماری بہت منت سماجت کی، وہ ہمارے پاؤں پڑ گئے تھے۔ ہمیں مجبوراﹰ لڑکی کا آپریشن کرنا پڑا۔ انہوں نے کتنے پیسے دیے، صرف بڑی ڈاکٹر جانتی ہیں۔ ہم نے اس فیملی کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ ہم بچے کو قتل نہیں کریں گے۔ ہم نے بچے کو ان کے حوالے کر دیا۔ صرف وہ لڑکی اور اس کی ماں جانتی ہے کہ انہوں نے بچے کے ساتھ کیا کیا یا اسے کیسے قتل کیا۔‘‘
پاکستان ایک قدامت پسند ملک ہے، جہاں شادی سے پہلے بچوں کی پیدائش کی مذمت کی جاتی ہے اور اسے خاندان کی بے عزتی بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اسلامی قوانین کی تشریحات کے تحت ’بدکاری کے جرم‘ میں موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس ’جرم‘ میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رضیہ بتاتی ہے، ’’گھر والوں کو علم ہی نہیں ہوتا لیکن لڑکیاں اپنے دوست بنا لیتی ہیں اور تعلقات بھی قائم کر لیتی ہیں۔ آج کا دور بہت جدید ہو چکا ہے۔ لڑکی اور لڑکوں کے پاس موبائل فون آ چکے ہیں۔ وہ مغربی فلمیں دیکھتے ہیں اور نوجوانوں کو جب بھی کوئی موقع ملتا ہے، وہ کچھ کر گزرتے ہیں۔ گھر والوں کو اس وقت پتہ چلتا ہے، جب لڑکیاں حاملہ ہو چکی ہوتیں ہیں۔‘‘
پاکستان میں کام کرنے والی فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس گیارہ سو سے زائد نومولود بچوں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا پھر انہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر پھینک دیا گیا۔ اس فاؤنڈیشن کے مطابق ہلاک ہونے والے بچوں میں زیادہ تر نومولود بچیاں تھیں۔ فاؤنڈیشن کے مطابق انہوں نے یہ اعداد و شمار صرف پاکستان کے چند اہم شہروں سے جمع کیے ہیں۔ ایک اندازہ ہےکہ دیہی علاقوں میں ایسے واقعات شہروں کی نسبت کہیں زیادہ رونما ہوتے ہیں، جن کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ناممکن ہے۔
کراچی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے مینیجر انور کاظمی کے مطابق ہر طرف المناک کہانیوں کی کثرت ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’چند واقعات میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ ایک بچے کی عمرصرف چھ دن تھی لیکن اس کو جلا کر پھینک دیا گیا تھا۔ ہمیں کوڑے کے ڈھیروں پر بچوں کی ایسی لاشیں بھی ملیں، جنہیں پھانسی دے کر قتل کیا گیا تھا اور ایسی بھی، جن کے جسم کے حصے جانور کھا چکے تھے۔ ایک واقعہ میں ساری زندگی نہیں بھول سکتا۔ ایک بچہ کسی عورت نے مسجد کے دورازے کے سامنے رکھ دیا، اسے امید ہو گی کہ کوئی اسے پال لے گا۔ لیکن امام مسجد کے کہنے پر اس بچے کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ میں نے بھی اس بچے کی لاش دیکھی، وہ کئی حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔‘‘
کاظمی کہتے ہیں کہ کس بھی مولوی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بچے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اس قتل کرنے کا فتویٰ دے۔ اسلام ایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔ ان کا انتہائی عاجزانہ انداز میں کہنا تھا، ’’میں ان تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں، جو بچوں کو ناجائز سمجھتے ہوئے انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ میری ان سے گزارش ہے کہ بچے ہمارے پاس چھوڑ جائیں۔ ملک بھر میں ہمارے تین سو سے زائد سینٹرز ہیں۔ وہ رات کے اندھیرے میں بھی آ سکتے ہیں، انہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
لیکن انہیں ڈرنے کی ضرورت تو اب بھی ہے۔ پاکستان میں اسقاط حمل قانونی طور پر منع ہے۔ اس کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے، جب ماں کی زندگی خطرے میں ہو۔ پاکستانی قانون کے مطابق زندہ بچے کے اسقاط حمل یا پھر اس کے قتل کی سزا عمر قید ہے لیکن کسی نومولود بچے کے قتل کا مقدمہ کبھی کبھار ہی چلایا جاتا ہے۔
اسلام آباد میں کام کرنے والے ایک وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ کا کہنا ہے،’’اکژ پولیس اسٹیشنوں پر ایسے مقدمات رجسٹر ہی نہیں کیے جاتے اور نہ ہی کوئی ان کی پیروی کرتا ہے۔ کم از کم میں نے اپنے زندگی میں ایسا کوئی مقدمہ نہیں دیکھا۔‘‘
معصوم بچوں کا بڑے پیمانے پر مبینہ قتل پاکستان میں ایک ممنوع موضوع ہے۔ یہ پاکستان کا ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کے بارے میں کوئی بھی شوق سے بولنا پسند نہیں کرتا، نہ ڈاکٹر، نہ ہی مذہبی رہنما اور نہ ہی کوئی متاثرہ لڑکی اور مردہ بچے تو ویسے بھی نہیں بول سکتے۔