پاکستان میں ایسے شہریوں کی سالانہ تعداد تقریباً پینتیس ہزار بنتی ہے، جنہیں کوئی نہ کوئی سانپ کاٹ لیتا ہے۔ ان میں سے ہزاروں سانپ کے زہر کے خلاف ویکسین بروقت دستیاب نہ ہونے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سانپ کے زہر کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عامر اکرم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ جو اینٹی وینم بنا رہا ہے، وہ چار مختلف سانپوں کے زہر سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سانپ کوبرا، رسل وائپر، ایکس اور کریٹ ہیں، جن سے حاصل کیے گئے زہر سے اینٹی وینم کی سالانہ تیس ہزار وائلز یا چھوٹی چھوٹی شیشیاں تیار کی جاتی ہیں۔
سانپ کے کاٹے کے علاج کے لیے تریاق یا دوائی اسی سانپ کے زہر سے بنائی جاتی ہے۔ کسی بھی تریاق کی تیاری کا عمل خاصا طویل اور انتہائی پیچیدہ ہوتا ہے۔ طبی زبان میں سانپ کے زہر کے خلاف ایسی ادویات کو اینٹی وینم کہا جاتا ہے۔ ان کی تیاری کے لیے ماہرین ’معاون‘ جانوروں کے طور پر زیادہ تر بھیڑوں یا گھوڑوں پر انحصار کرتے ہیں، جنہیں ڈونرز کہا جاتا ہے۔
ان ڈونرز کو ماہرین پہلے ایک یا ایک سے زیادہ قسموں کے سانپوں کا زہر دیتے ہیں اور پھر ان کی مدد سے تیار کی جانے والی اینٹی وینم ادویات مختلف زہریلے سانپوں کے کاٹنے سے بیمار ہو جانے والے افراد کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر عامر اکرم کے بقول اپنے اثرات میں یہ تریاق اتنے اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے کہ ایک بین الاقوامی طبی جریدے نے حال ہی میں اسے سراہتے ہوئے لکھا کہ یہ اپنے نتائج میں پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت میں بنائے گئے اینٹی وینم سے کہیں بہتر ہے۔
طلب اور رسد میں واضح فرق
کیا پاکستان میں این آئی ایچ کی طرف سے تیار کیے گئے اینٹی وینم پورے ملک میں ایسی ادویات کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں، اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر عامر اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’2004 میں شروع کیا گیا ہمارا اینٹی وینم پروجیکٹ حکومتی امداد کی عدم دستیابی کے باعث تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ ماضی قریب میں ہم ملکی سطح پر ایسی ادویات کی طلب کا صرف ایک تہائی حصہ پورا کر سکتے تھے۔ اب حکومت کی جانب سے فنڈنگ کی بحالی اور زیادہ تعاون کے نتیجے میں ہم اس منصوبے پر بھرپور کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ اس سال اگست تک ایک ایسا پلانٹ کام کرنا شروع کر دے گا، جو ملکی ضروریات کا نصف سے زائد پورا کر سکے گا، ’’یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اس منصوبے پر ایک سے زیادہ شفٹوں میں کام کیا جائے، تو ہم ملکی ضروریات کا سو فیصد پورا کر سکیں۔‘‘
پاکستان کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کو امید ہے کہ یہ نیا پلانٹ فعال ہو جانے کے بعد نہ صرف بہت زیادہ مقدار میں اینٹی وینم ادویات بنائی جا سکیں گی بلکہ ملک میں اینٹی ریبیز (کتے کے کاٹے کے خلاف ادویات) اور اینٹی ڈسٹیریا کی قلت بھی ختم کی جا سکے گی۔ پاکستان میں اس شعبے میں بہتر کارکردگی اور تحقیق کے لیے ایک ریسرچ سینٹر کے قیام کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔
این آئی ایچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا، ’’اس سینٹر کے قیام کا مقصد سانپوں کی مقامی اقسام اور ان کے متنوع زہر کے خلاف ویکسینز کی تیاری پر تحقیق ہے، جس کے بعد ہم ملک میں اینٹی وینم کی ٹوٹل ڈیمانڈ مقامی سطح پر ہی پوری کر سکیں گے اور بیرون ملک سے ادویات درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
تریاق کی تیاری ایک سال میں
اسلام آباد میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کا ایک ذیلی شعبہ بائیولوجیکل پروڈکشن ڈویژن بھی ہے۔ اس شعبے کی سربراہ ڈاکٹر غزالہ پروین نے ڈی ڈبلیو کو تفصیل سے بتایا کہ کسی زہر کے تریاق یا اینٹی وینم کی تیاری کتنا طویل اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ یہ ادارہ اینٹی وینم بنانے کے لیے زہریلے سانپ خریدتا ہے۔ ایک عام سانپ سے اوسطاً ہر دو ہفتوں بعد زہر حاصل کیا جاتا ہے، جسے منجمد کر کے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔پھر یہ زہر تھوڑا تھوڑا کر کے لیکن طویل عرصے تک گھوڑوں کو دیا جاتا ہے، جو اپنے جسمانی مدافعتی نظام کی وجہ سے بتدریج اس زہر کے خلاف مزاحمت یا مقابلے کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر غزالہ پروین نے بتایا، ’’زہر کے خلاف مدافعت پیدا ہو جانے کے بعد ہم ڈونر جانور کے جسم سے خون لے کر اس میں سے اینٹی باڈی خلیات کو علیحدہ کر لیتے ہیں۔ انہی اینٹی باڈی خلیات سے اینٹی وینم ادویات تیار کی جاتی ہیں اور اس پورے عمل میں دس سے بارہ ماہ تک کا عرصہ لگتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر غزالہ پروین نے سانپ کے کاٹے کے مریض کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ این آئی ایج کی تیار کردہ ایک اینٹی وینم وائل کی قیمت بارہ سو روپے ہے اور ایک مریض کو کم از کم تین سے چار وائلز لگتی ہیں۔ یوں اوسطاً ایک مریض کے علاج پر تقریبا پانچ ہزار روپے تک خرچ ہوتے ہیں، جو درآمدی ادویات کے استعمال کی لاگت سے تین چوتھائی سستا ہے، ’’اس کے علاوہ اس ویکسین کی کم مقدار بھی زیادہ مؤثر ہوتی ہے جبکہ درآمد کیا گیا اینٹی وینم استعمال کیا جائے، جو زیادہ تر بھات سے آتا ہے، تو مریض کو اس کی بارہ سے پندرہ تک وائلز لگانا پڑتی ہیں۔
دنیا کے انوکھے اور ریکارڈ بنانے والے سانپ
بہت سے لوگ سانپوں سے ڈرتے ہیں لیکن بہت سے ان سے محبت بھی کرتے ہیں۔ کچھ بھی ہو، سانپ دلچسپ بھی ہیں اور ورسٹائل بھی۔ دنیا میں ایسے سانپ بھی ہیں، جو اُڑ سکتے ہیں۔ جانیے دنیا کے حیرت انگیز سانپوں کے بارے میں
تصویر: Frupus/nc
سب سے زیادہ زہریلا سانپ
شمالی آسٹریلیا میں پایا جانے والا ’اِن لینڈ ٹائی پین‘ نامی یہ سانپ دنیا میں سب سے زیادہ زہریلا سانپ ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ ایک مرتبہ ڈنگ مارنے پر جتنا زہر خارج ہوتا ہے، اُس سے تقریباً 100 لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔ اس سانپ کا زہر اعصابی نظام، خون اور عضلات کو متاثر کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/R. Koenig
سب سے زیادہ جان لیوا
سانپوں کی دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ایکس کاریناٹس نامی سانپ سے ہوئی ہیں۔ یہ انتہائی تیزی سے وار کرتا ہے اور اسی وجہ سے اسے سب سے زیادہ جان لیوا سانپ کہا جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں بلی کی طرح چمکتی ہیں۔
تصویر: Frupus/nc
سب سے بڑا سانپ
گرین اناکونڈا کو دنیا میں سب سے بڑا سانپ تصور کیا جاتا ہے۔ جنوبی امریکا کے جنگلات میں پایا جانے والا یہ سانپ اندھیرے اور گہرے پانی کو پسند کرتا ہے۔ اس نسل کے کئی سانپ 29 فٹ تک لمبے ہوتے ہیں۔ یہ سانپ انتہائی طاقتور پٹھوں کا مالک ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/OKAPIA KG
گرین اناکونڈا سے بھی بڑا
ٹیٹانوبوا کے سامنے گرین اناکونڈا کی حیثیت چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ یہ سانپ قبل از تاریخ کے دور میں ایک حقیقت ہوا کرتا تھا۔ ٹیٹانوبوا کی قدیم باقیات کولمبیا میں دریافت ہوئی تھیں۔ اندازوں کے مطابق 40 ملین سال پہلے یہ سانپ پانی کے کنارے رہتا تھا اور یہ تیرہ میٹر تک لمبا ہوتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چھوٹا ترین سانپ
دھاگے کی طرح کا بارباڈوس نامی یہ سانپ صرف دس سینٹی میٹر لمبا ہوتا ہے اور اس کی موٹائی ایک نوڈل جیتنی ہوتی ہے۔ یہ سانپ سن 2008ء میں کیریبین جزیرے بارباڈوس پر دریافت ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لالچی ترین سانپ
سانپوں کا نچلا جبڑا لچکدار ہوتا ہے اور یہ اپنے سائز سے دو گنا بڑے شکار کو نگل سکتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات لالچ میں ان کی اپنی ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ تصویر 2005ء میں فلوریڈا کے نیشنل پارک میں بنائی گئی تھی۔ اژدھے نے مگرمچھ کو نگلنے کی کوشش کی اور خود اس کا اپنا جسم پھٹ گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
بھیس بدلنے کا ماہر
کیا یہ ایک پتا ہے؟ نہیں یہ گابون وائپر نامی سانپ ہے۔ یہ سانپ سوکھے پتوں کا روپ دھارنے میں ماہر ہے۔ سانپوں میں سب سے لمبے زہریلے دانت اس کے ہیں۔ اس کے دانت پانچ سینٹی میٹر تک لمبے ہوتے ہیں لیکن یہ سانپ کم ہی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa Themendienst
چالاک سانپ
کنگ سنیک نامی یہ سانپ بالکل زہریلا نہیں ہے لیکن یہ دوسرے جانوروں کو اس بات کا علم نہیں ہونے دیتا۔ خطرے کے وقت یہ اپنی شکل و صورت بالکل ویسی ہی بنا لیتا ہے، جیسی کسی زہریلے سانپ کی ہوتی ہے تاکہ دوسروں کو یہ محسوس ہو کہ یہ خطرناک ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner-Pressefoto
پانی اور خشکی کے بغیر گزارہ نہیں
ایسے سانپ پانی میں رہنا پسند کرتے ہیں اور ان میں سے کئی ایک تو انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔سمندری سانپ تین میٹر یعنی تقریبا دس فٹ تک لمبے ہو سکتے ہیں۔ سمندری سانپوں کی یہ نسل خشکی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی کیوں کہ انہیں اپنی خوراک ہضم کرنے کے لیے پانی سے باہر آنا پڑتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/R. Dirscherl
اڑنے والے سانپ
یہ سانپ خود کو اس طرح پھیلاتا اور آگے کی طرف دھکا دیتا ہے کہ یہ ایک درخت سے دوسرے درخت تک اُڑتا ہوا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے انہیں ’فلائنگ سنیک‘ کہتے ہیں۔ درخت پر یہ سانپ 30 میٹر اونچائی تک چڑھ جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ صحت کے شعبے میں ریاستی اداروں کا بجٹ بڑھایا جانا چاہیے، ’’اسی طرح ہم ملک میں ایسی ادویات کی جملہ ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں، جو اس وقت تقریبا ڈیڑھ لاکھ وائلز بنتی ہیں۔ اب ہمیں چین کا تعاون بھی حاصل ہے، جہاں سے جلد ہی ماہرین بھی پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے، جن سے ہمیں اپنے منصوبوں میں مدد ملے گی۔‘‘
جنگلی حیات کے تحفظ اور سانپوں کی خرید و فروخت میں دلچسپی رکھنے والے اسلام آباد کے رہائشی علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سانپوں کے زہر پر اس وقت دنیا میں بڑی تحقیق ہو رہی ہے۔ سانپوں کے زہر میں شوگر مالیکیولز کا ایک گروپ ہوتا ہے، جو طبی کیمیائی حوالے سے کسی بھی مریض کے لیے خطرہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ زہر میں موجود سیالک ایسڈ (Sialic acid) اس کے اثر کو بڑھا دیتا ہے۔ اگر کوئی سانپ کسی کو کاٹ لے، تو دو گھنٹے کے اندر اندر اگر اینٹی وینم استعمال کر لیا جائے، تو مریض کو بچایا جا سکتا ہے۔‘‘
دس زہریلے ترین جانور
دنیا میں زہریلے جانورں کی کمی نہیں۔ بہت سے زہریلے جانوروں کے کاٹے کا علاج دریافت ہو چکا ہے جبکہ ایک بڑی تعداد ایسے جانوروں کی بھی ہے، جن کا شکار ہونے پر انسان کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ دس زہریلے ترین جانوروں کی تصاویر۔
تصویر: Imago/blickwinkel
پانی میں تیرتا ہوا خطرہ
اّسی سینٹی میٹر طویل یہ دریائی سانپ دنیا کے تقریباً تمام دریاؤں میں پایا جاتا ہے۔ اس جانور کا بظاہر دشمن کوئی نہیں۔ تاہم اس کے زہر کی تھوڑی سے مقدار بھی ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ سانپوں کی یہ قسم جارحانہ نہیں ہوتی اور یہ ساحلوں کے دور گہرے پانیوں میں ہی پائی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot/BCI/J. Visser
سی ویسپ یا باکس جیلی فش
آسٹریلیا کے پانیوں میں سی ویسپ جسے باکس جیلی فش بھی کہا جاتا ہے، بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ جیلی فش کی یہ قسم استوائی اور نیم مرطوب سمندرں میں بھی موجود ہوتی ہے۔ ان کی چھتری نما ٹانگیں بیس سینٹی میٹر تک لمبی ہو سکتی ہیں۔ اس کا زہر دل، اعصبای نظام اور جلد کے خلیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
تصویر: AP
منڈارینا بِھڑ
منڈارینا بِھڑ کو دیو ہیکل ایشیئن بھڑ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اسے بڑے ڈنک والی بھڑ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ چھوٹے اور درمیانے سائز کے بھنورے بھی کبھی کبھار اس کی غذا بنتے ہیں۔ اس کےتقریباً چھ سینٹی میٹر لمبے ڈنک کاٹنے کی صورت میں انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے زہر سے گوشت جھڑنا شروع ہو سکتا ہے جبکہ مزید بھڑیں بھی اس جانب متوجہ ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرخ پشت والی مکڑی
یہ زہریلی ترین مکڑی ہے اور کسی مکڑے سے زیادہ زیادہ خطرناک ہے۔ اس کے زہر سے جسم میں شدید درد ہوتا ہے اور پٹھے اکڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نظام تنفس تک پہنچنے کی صورت میں اس زہر سے موت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مکڑی عام طور پر آسٹریلیا میں پائی جاتی ہے تاہم اب جاپان میں بھی اس کے پائے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Getty Images
ڈیتھ اسٹالکر یا زرد بچھو
زرد بچھو شمالی افریقہ سے لے کر مشرقی وسطٰی میں پایا جاتا ہے۔ دس سینٹی میٹر طویل یہ کیڑا پتھروں والے خشک علاقوں میں رہتا ہے۔ یہ پتھروں کے نیچے اور دیواروں میں پڑنے والی دڑاڑیں اس کا گھر ہیں۔ یہ انتہائی پھرتیلا اور زہر سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا زہر اعصابی نظام کو مفلوج کر دیتا ہے۔
تصویر: cc-by/Ester Inbar
گولڈن مینڈک
اس چھوٹی سی مخلوق کو دنیا کا زہریلا ترین مینڈک قرار دیا جاتا ہے۔ کولمبیا میں کوکو انڈیانر نسل کے افراد اس مینڈک کا زہر شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/DWaEbP
اصلی سنگ ماہی
استوائی اور نیم مرطوب سمندر اس مچھلی کا گھر ہیں۔ یہ بحیرہ احمر سے لے آسٹریلیا تک کے سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ اس مچھلی کے جسم پر موجود کانٹے نما کھال میں زہر موجود ہوتا ہے۔ اگر غلطی سے کوئی ان کانٹوں کو چھو لے تو شدید درد ہوتا ہے اور اچانک سانس بھی رک سکتی ہے۔
تصویر: Imago/oceans-image
بلیو رنگڈ اوکٹوپس (ہشت پا)
اکٹوپس کی یہ قسم بیس سینٹی میٹر طویل ہے۔ اس کی جلد پر موجود نیلے دائرے کسی خطرے کی صورت میں چمکنے لگتے ہیں۔ اس کا زہر بہت تیزی سے جسم میں سرائیت کرتا ہے، ذہن تو پوری طرح سے چاق و چوبند رہتا ہے لیکن جسم حرکت کے قابل نہیں رہتا۔
تصویر: imago/OceanPhoto
جیوگرافر کون (گھونگا)
یہ استوائی سمندروں میں پائی جانے والی گھونگے کی ایک قسم ہے۔ پندرہ سیٹی میٹر طویل یہ جانور اپنے جسم پر بننے نقش و نگار کی وجہ سے یہ بہت ہی قابل دید ہوتا ہے۔ تاہم اس کا حملہ ہلاکت خیز بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے زہر کا توڑ ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/OKAPIA
زوان تھاریا (مرجان)
یہ سمندرکی تہہ میں پائی جانے والے جانور مرجان یا کورال کی ہی ایک قسم ہے۔ بظاہر پودا دکھائی دینے والی یہ مخلوق ایک جانور ہے۔ یہ تقریباً تمام ہی مچھلی گھروں میں موجود ہوتی ہے۔ یہ جانور بھی انتہائی زہریلا ہے اور اس کے کاٹے کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔
تصویر: Imago/blickwinkel
10 تصاویر1 | 10
علی خان کے مطابق، ’’پاکستان میں نجی سطح پر سندھ میں سانپوں کے زہر سے تریاق بنانے پر کافی کام کیا جا رہا ہے۔ اکثر لوگ سانپ دیکھتے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں حالانکہ اکثر سانپ زہریلے نہیں ہوتے۔ اگر کسی جگہ پر سانپوں کی موجودگی کا خدشہ ہو، تو زمین پر پاؤں مارتے ہوئے چلنا بہتر ہوتا ہے۔ سانپ چونکہ اپنے ارد گرد بہت معمولی سے نقل و حرکت بھی محسوس کر لیتے ہیں، اس لیے کسی کو اپنی طرف آتا محسوس کر کے وہ خود ہی دور چلے جاتے ہیں۔‘‘
ماہرین حیوانات کے مطابق دنیا بھر میں سانپوں کی مجموعی طور پر 2800 اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سے صرف 280 اقسام کے جانور زہریلے ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت، جنوبی افریقہ، برازیل، میکسیکو، کوسٹاریکا اور آسڑیلیا کا شمار ان بڑے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں سانپ کے زہر کے خلاف اینٹی وینم ادویات وسیع پیمانے پر تیار کی جاتی ہیں۔
سانپ مساج سینٹر
جسم میں درد ہو تو مساج کا نام سنتے ہی آرام کا احساس ہونے لگتا ہے لیکن اگر یہی مساج خوفناک سانپ کریں تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
مساج میں سانپوں کا استعمال کیوں
سانپوں کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے شکار کو آہستہ آہستہ اپنے شکنجے میں لیتے ہیں، اس وقت تک جب تک شکار کا دم گُھٹ نہ جائے۔ پھر وہ اپنے شکار کو نگلنا شروع کرتے ہیں۔ جکڑنے کی خصوصیت کی وجہ سے ہی چند ممالک میں سانپوں کو مساج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
مساج سے پہلے دعوت
مساج کرانے والوں کو سانپوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مساج کے عمل سے 30 منٹ پہلے ان سانپوں کو خوب اچھا کھانا کھلایا جاتا ہے اور بعد میں اس کے جبڑے کو بند کر دیا جاتا ہے۔ تین میٹر لمبا اور آٹھ کلو گرام وزنی سانپ دورانِ مساج زیادہ تر کمر اور ٹانگوں پر رہتا ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
ہارمونز کا اخراج
مساج کروانے والے کتنی ہی ہمت کا مظاہرہ کیوں نہ کریں پھر بھی ذہن میں کہیں نہ کہیں ڈر اور خوف رہتا ہے۔ ایسا مساج کروانے والوں کا کہنا ہے کہ سانپوں کے ہلنے سے جسم میں عجیب سی سنسنی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
پٹھوں کو آرام
انسانی ہاتھوں کے مقابلے میں سانپ کی جکڑن بالکل مختلف ہوتی ہے۔ انسانی جسم پر ان سانپوں کی گرفت آہستہ آہستہ کم ہوتی اور بڑھتی ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
سانپوں کے مساج کے نفسیاتی فوائد
مساج ختم ہونے کے بعد لوگ چین کا سانس لیتے ہیں۔ اکثر افراد نے اس بات کو تسلیم بھی کیا کہ مساج کے دوران انہوں نے اپنے خوف پر قابو پانا بھی سیکھا۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
سخت نگرانی میں مساج
گاہکوں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے مساج رُوم میں سپر وائزر بھی موجود رہتے ہیں تاکہ سانپ کی حرکت اور اُس کے رویے پر نظر رکھی جا سکے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
سانپوں کے مساج کی بڑھتی مقبولیت
انڈونیشیا کے علاوہ چند دیگر ممالک میں بھی سانپوں کا مساج مقبول ہو رہا ہے اور اب ایسے کچھ مساج سینٹر برطانیہ اور فلپائین میں بھی کھل چکے ہیں۔