پاکستان میں دس اکتوبر کا دن اس لئے بھی اہم ہے کہ یہاں کئی جرائم کے ارتکاب پر موت کی سزا کا قانون رائج ہے اور اسی وجہ سے اکثر مغربی ممالک خصوصاﹰ یورپ پاکستان سے سزائے موت کے قانون کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اشتہار
پاکستان میں سزائے موت کا قانون ابتدا سے ہی رائج ہے، قتل، زناباالجبر، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی جیسے انتہائی سنگین جرائم کے لئے موت کی سزا کا قانون ہے تاہم ٹرائل کورٹ سے سزا کے باوجود اکثر مجرمان کو قانون کے تحت حاصل اعلٰی عدلیہ میں سزا کے خلاف اپیل کسی سہولت سے کم نہیں۔ اکثر اوقات مجرم آدھی زندگی اپیل کے سہارے گزار لیتے ہیں۔
معروف ماہر قانون احمد رضا قصوری نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سزائے موت یا عمر قید پانے والا مجرم معاشرے کا حصہ نہیں رہتا اسے ایک مرتبہ معاشرے میں واپس لانے کے لئے بحالی کا موقع ضرور دینا چاہیے۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ’’سبق آموز سزا دینے سے دلوں میں قانون سے عبرت پیدا ہوتی ہے۔ مغربی ممالک میں سزائے موت کا تصور اس لئے ختم ہوا ہے کہ وہاں قانون حکمرانی کرتا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں معصوم بچوں اور بچیوں سے زیادتی، بدفعلی یا خواتین سے انفرادی اور اجتماعی زیادتی قابل معافی جرائم نہیں ہیں۔‘‘
مشرف حکومت کے خاتمے اور پاکستان میں بحالی جمہوریت کے نتیجے میں قائم ہونے والی زرداری حکومت نے پاکستان میں سزائے موت کے عملدرآمد پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کی مگر نواز شریف دور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور دہشت گردوں کو سزائے موت بھی دینا شروع کر دی گئی۔
کراچی کے مشہور تہرے قتل کی ملزم اسماء نواب کو سپریم کورٹ سے بری کرانے والے وکیل جاوید چھتاری کہتے ہیں کہ مقدمات کی طویل سماعت اور تاخیر سے ہونے والے فیصلوں سے سزا کے اثرات زائل ہو جاتے ہیں، ’’اگر فیصلوں پر فوری عملدرآمد ہو تو یہ زیادہ موثر ثابت ہوں گے۔‘‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سزائے موت کے مجرم کو راہ راست پر آنے کے لیے ایک موقع ضرور ملنا چاہیے کیونکہ اس کی سزا صرف اسے نہیں بلکہ اس سے منسلک دیگر افراد کو بھی ملتی ہے۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے قانون دان ضیاء اعوان کے مطابق سخت ترین سزائیں وہاں درکار ہوتی ہیں، جہاں دراصل کریمنل جسٹس سسٹم کمزور ہو، ’’تو پاکستان میں بنیادی کام قانون کی خامیاں دور کرنے کا ہے، کیونکہ سزائے موت کے باوجود بھی سنگین جرائم میں کمی دکھائی نہیں دے رہی۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ماہر اولواٹسین پاپولا کا بھی کہنا تھا کہ ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ جرائم کے تدارک کے حوالے سے سزائے موت دینا دیگر سزاؤں کے مقابلے میں زیادہ کارگر ہے۔ انہوں نے کینیڈا کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ سن 2016 میں اس ملک میں رونما ہونے والی قتل کی وارداتیں سزائے موت کا قانون ختم کیے جانے والے سال یعنی سن 1976 کی نسبت نصف تھیں۔
دنیا میں 106 ممالک میں سزائے موت کا قانون ختم کیا جا چکا ہے جب کہ 146 ممالک ایسے ہیں جہاں گزشتہ دس برسوں کے دوران کسی شخص کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق چین کو چھوڑ کر ایران، سعودی عرب، عراق اور پاکستان بالترتیب وہ چار ایسے سب سے زیادہ سزائے موت پر عملدرآمد کرنے والے ممالک ہیں، جہاں سال 2017ء کے دوران دنیا بھر میں ہونے والی سزائے موت میں سے 84 فیصد پر عمل کیا گیا۔
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔