1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: سوات میں یومِ آزادی کی رونقیں

عدنان باچا، سوات14 اگست 2013

چند سال پہلے دہشت گردوں نے سوات میں پاکستانی پرچم لہرانے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی تاہم اس بار اس وادی میں یومِ آزادی کے موقع پر زبردست جوش و جذبہ نظر آ رہا ہے اور گلیاں اور بازار پاکستانی پرچموں سے سجے ہوئے ہیں۔

تصویر: DW/A. Gran

1969ء میں پاکستان کے ساتھ ادغام کے بعد سے سوات میں ہر سال پاکستان کی آزادی کا دن انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ سکولوں اور کالجوں میں یوم آزادی کے دن رنگا رنگ تقریبات منعقد کی جاتی تھیں، جن میں سوات کے لوگ پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ مینگورہ شہر کے بازاروں کو پاکستانی جھنڈیوں اور قمقموں سے سجایا جاتا تھا اور یوم آزادی کی رات مینگورہ کے بازاروں میں کافی ہلا گلا دکھائی دیتا تھا مگر سوات میں تین سالہ کشیدگی کے دوران یوم آزادی کی تمام تر سرگرمیوں کا خاتمہ ہو گیا۔

اس تین سالہ کشیدگی کے دوران جہاں ایک طرف لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی، وہاں دوسری جانب پاکستان سے محبت کے اظہار پر بھی قدغن لگائی گئی اور سوات کو پاکستان حصہ تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ لوگوں کو دھمکیاں دی گئیں کہ وہ سکولوں،کالجوں اور گھروں پر پاکستانی پرچم نہ لہرائیں۔ اس کے بعد طالبان کے خوف کی وجہ سے سکولوں اور کالجوں سے پاکستانی پرچم اتار دیے گئے۔ تب لوگ پاکستان کا نام زبان پر لانے سے بھی ڈرتے تھے۔

ایک سواتی بچہ ہاتھ میں پاکستانی پرچم تھامے مٹھائی پر نظریں جمائے ہوئے ہےتصویر: DW/A. Gran

2009ء میں کامیاب فوجی آپریشن کے بعد سوات میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوئے تو اسی سال 14 اگست کی آمد نے لوگوں کی خوشیاں دوبالا کر دیں۔ ایک طرف پاکستان کی آزادی کا دن منایا گیا تو دوسری جانب طالبان سے آزادی کا دن بھی انتہائی جوش، ولولے اور جذبے کے ساتھ منایا گیا۔

سوات کے سینئر صحافی و تجزیہ نگار شہزاد عالم کا کہنا ہے کہ طالبان کے دور میں سوات علاقہ غیر میں تبدیل ہو گیا تھا اور یہاں کے لوگوں کا پاکستان سے ہر قسم کا ناطہ ٹوٹ گیا تھا:’’جو لوگ طالبان کے خلاف آواز اُٹھاتے، انہیں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا، جس کے باعث لوگوں میں کافی خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ لوگ پاکستان کا نام اپنی زبان پر لانے سے ڈرتے تھے جبکہ یوم آزادی کی آمد پر تمام بازار سنسان پڑے رہتے تھے۔‘‘

سوات میں قیام امن کے بعد سے ہر سال پاکستان کی آزادی کا دن روایتی طور پر کافی گرم جوشی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس سال بھی جشن آزادی کا اہتمام نہایت خلوص اور جوش و خروش سے کیا گیا ہے۔ بازاروں اور گلیوں میں پاکستانی پر چم لہرا رہے ہیں اور جشن آزادی کے اسٹالوں پر بچے بوڑھے اور جوان اپنے لیے بیجز اور جھنڈے خریدتے نظر آ رہے ہیں۔ رات کو منچھلے بازاروں میں پاکستان سے محبت سے اظہار کے طور پر ملی نغموں کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور دیر رات تک بازاروں میں پاکستانی ترانے اور ملی نغمے گونجتے رہتے ہیں۔

مینگورہ میں ایک سٹال پر پاکستانی پرچموں، جھنڈیوں اور بینرز کے خریداروں کا رَشتصویر: DW/A. Gran

سوات کے رہائشی محمد علی نے بھی جشن آزادی کے لیے اسٹال لگایا ہوا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں کی نسبت اس سال لوگ یوم آزادی کے دن کو منانے کے لیے زیادہ پر جوش نظر آ رہے ہیں اور لوگوں کے چہروں پر بھی شادمانی کے آثار نمایاں ہیں:’’بچے بوڑھے اور جوان یوم آزادی کے لیے جھنڈے اور بیجز خرید رہے ہیں، جس سے ہمارے کاروبار پر بھی اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں جبکہ لوگ بھی پاکستان کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔‘‘

پروفیسر اور ادیب عطاء الرحمان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس سال جشن آزادی کو اس عہد کی تجدید کے ساتھ منانا چاہیے کہ ہم اس وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے عملی کوششیں کریں گے۔ انہوں نے مزید بتایا:’’آزادی کا شکر ادا کرنے کا عملی طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے وطن کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے کام کریں اور اس کے ساتھ مخلص ہوں۔ اس بار جشن آزادی کے حوالے سے لوگوں میں جو جوش و خروش نظر آ رہا ہے، یہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اب وادی سوات کے باسی بھی ہر سال 14 اگست کو منائے جانے والے یومِ آزادی کے موقع پر پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سوات میں پروان چڑھنے والی دہشت گردی کے خلاف جس انداز میں لوگوں نے قربانیاں دیں، اُس سے ایک طرح سے پاکستان کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی یاد تازہ ہو گئی اور اسی کی وجہ سے سوات کے پر امن عوام یوم آزادی کو اپنی آزادی کے طور پر بھی مناتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے، جب لوگ یہ عہد کرتے ہیں کہ شر پسند عناصر کو دوبارہ اپنی مٹی پر قدم نہیں جمانے دیں گے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں