پاکستان: سپریم کورٹ نے اجینوموتو پر پابندی عائد کر دی
4 مارچ 2018
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک بھر میں اجینوموتو کی فروخت کے ساتھ ساتھ اس کی درآمد اور برآمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بھی اسے ’صحت کے لیے مضر‘ قرار دے دیا گیا ہے۔
اشتہار
چین سے درآمد کیے جانے والے نمک (مونو سوڈیم گلوٹا میٹ) کو اجینو موتو کہا جاتا ہے۔ ہفتے کے پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود کیس کی سماعت کرتے ہوئے اس چینی نمک پر پابندی عائد کر دی ہے۔ انہوں نے یہ حکم بھی دیا کہ تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو اس فیصلے سے فوری طور پر آگاہ کیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کو یہ معاملہ کابینہ میں بھی پیش کرنا چاہیے۔ عدالت میں موجود پنجاب چیف سیکریٹری کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے بھی شق نمبر ایک سو چوالیس کے تحت چینی نمک کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی بھی اس کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
کورٹ کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چینی نمک کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کے حوالے سے معاملہ کابینہ میں زیر التوا ہے۔ واضح رہے کہ پندرہ جنوری کو پنجاب فوڈ اتھارٹی (پی ایف اے) کی رپورٹ میں اجینوموتو کو ’مضر صحت‘ قرار دیا گیا تھا۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کا کہنا تھا کہ چینی نمک میں مونو سوڈیم گلوٹا میٹ (ایم ایس جی) شامل ہے، جس سے ذائقہ تو تیز ہو جاتا ہے لیکن یہ دمے، سر درد اور دماغ کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ اگر اس نمک کو مسلسل استعمال کیا جائے تو ہائی بلڈ پریشر، ہارمونز میں عدم توازن اور کھانے کی الرجی جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ حاملہ خواتین کے لیے خاص طور پر نقصان دہ ہے۔
کھیوڑہ اور کوہستانِ نمک، ایک ارضیاتی عجوبہ
سالٹ رینج کا پہاڑی سلسلہ تحصیل پنڈ دادن خان کے شمال میں کھیوڑہ سے لے کر دریائے سندھ کے کنارے کالا باغ کے مقام تک پھیلا ہوا ہے۔ یہیں کھیوڑہ کے مقام پر خوردنی نمک کی وہ کان بھی ہے، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی کان ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’پتھر نہیں نمک‘
کوہستان نمک کہلانے والے پہاڑی سلسلے کی جغرافیائی لمبائی 3 سو کلومیٹر، 8 آٹھ سے لے کر تیس کلو میٹر تک اور اونچائی سوا دو ہزار فٹ سے لے کر چار ہزار فٹ تک بنتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں نمک کی موجودگی کا پتہ چوتھی صدی قبل از مسیح میں چلا تھا جب اسکندر اعظم کے دستوں کے گھوڑے پتھر چاٹتے پائے گئے تھے۔ تب یہ پتہ چلانے میں دیر نہیں لگی تھی کہ گھوڑے جو پتھر چاٹتے تھے، وہ پتھر نہیں بلکہ نمک تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دنیا میں خوردنی نمک کا بڑا ذخیرہ
کھوڑہ سالٹ مائن یا نمک کی کان کا اس کی موجودہ حالت میں افتتاح انیس سو سولہ میں ہوا تھا۔ اس کان کا انتظام پاکستان کی معدنیاتی ترقی کی کارپوریشن PMDC کے پاس ہے۔ کھیوڑہ میں نمک کی کان میوMayo سالٹ مائن بھی کہلاتی ہے۔ یہ قدرتی خزانہ دنیا میں خوردنی نمک کے بڑے ذخائر میں شمار ہوتا ہے۔ اس کان سے نمک نکالنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر کوششیں برطانوی نو آبادیاتی دور میں انیسویں صدی کے وسط میں شروع ہوئی تھیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’ایک ارضیاتی عجوبہ‘
کھیوڑہ میں نمک کی کان دیکھنے کے لیے ہر سال قریب ایک چوتھائی ملین پاکستانی اور غیر ملکی سیاح اس ارضیاتی عجوبے کا رخ کرتے ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والی ٹورسٹ ٹرام دراصل ان سیاحوں کے لیے ہے جو کان کے اندر جانے کے لیے طویل راستہ پیدل طے نہیں کرنا چاہتے۔ اس کان میں نمک کے ذخائر تک براہ راست رسائی کے لیے کھدائی سن اٹھارہ سو بہتر میں شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اس کان سے نمک آج تک نکالا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
طویل سرنگ
یہ وہ طویل راستہ ہے جو پیدل یا ٹرام میں سوار کارکنوں اور سیاحوں کو اس کان کے اندر تک لے جاتا ہے۔ سطح زمین سے اس کان کے اندر کافی گہرائی تک جانے والی یہ مرکزی لیکن بہت طویل سرنگ کان کنی کے ماہر برطانوی انجینیئر ڈاکٹر وارتھ کی سربراہی میں برصغیر پر برطانوی راج کے دور میں 1872 میں تعمیر کی گئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس کان کا انتظام پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے سپرد کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خوردنی نمک کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ
کھیوڑہ سالٹ مائن پاکستان کے لیے خوردنی نمک کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والا نمک وہ قلمی نمک ہے جو نمی کی وجہ سے کان کی دیواروں اور چھت سے رسنے کے بعد دوبارہ جم چکا ہے۔ کھیوڑہ سالٹ مائن سے پتھریلی حالت میں حاصل ہونے والا نمک ننانوے فیصد تک خالص ہیلائٹ halite ہوتا ہے، یعنی اس نمک میں آلودگی کی صورت میں دیگر اجزاء کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
چکمتا ہوا نمک
کھیوڑہ میں نمک کی کان سے ہر سال ساڑھے تین لاکھ ٹن سے زیادہ نمک نکالا جاتا ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق یہاں نمک کے ذخائر کا حجم دو کروڑ بیس لاکھ ٹن ہے۔ مختلف ماہرین نے ان ذخائر کے حجم کا اندازہ 82 ملین ٹن سے لے کر 600 ملین ٹن تک لگایا ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والی کان کی چھت ہلکے گلابی رنگ کا کروڑوں برسوں میں تہہ در تہہ جمع ہونے والا وہ نمک ہے جس کے ذرے روشنی پڑنے پر چمکنے لگتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
لکڑی کا فوصل
عشروں پہلے اس کان میں کھدائی کے دوران بہت پرانی لکڑی کا ایک فوصل ملا، جسے کھود کو نکالنے کے بجائے اس کی اصلی حالت میں محفوط کر لیا گیا۔ اس تصویر میں ممکنہ طور پر لاکھوں سال پرانی اس لکڑی کے ارد گرد لوہے کا حفاظتی جنگلہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دیکھنے میں پتھر نظر آنے والے اس فوصل شدہ لکڑی کے سائنسی مطالعے سے نمک کے ان ذخائر کے وجود میں آنے سے متعلق کئی حقائق سے پردہ اٹھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سترہ مختلف منزلوں پر کان کنی
اس وقت کھیوڑہ کی اس کان سے صنعتی پیمانے پر نمک نکالنے کا کام سترہ مختلف منزلوں پر کیا جا رہا ہے۔ اس کان کے سبھی حصے سیاحوں کے لیے کھلے نہیں ہیں۔ اس تصویر میں جو طویل سرنگ نظر آرہی ہے، اس کی اندرونی حالت ہی واضح کر دیتی ہے کہ سیاحوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
روشنی کا خاص انتظام، دلکشی کا باعث
بہت بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی کھیوڑہ سالٹ مائن کے اندر سیاح بہت سے مختلف حصوں میں جا سکتے ہیں، جہاں ان کی رہنمائی کے لیے گائید بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس تصویر میں اس کان کا ایسا ہی ایک حصہ دیکھا جا سکتا ہے، جہاں پتھروں کو کاٹ کر بنائے گئے راستے اور وہاں روشنی کا مخصوص انتظام اس کان کی سیر کو قدرت کے ایک حسین ارضیاتی عجوبے کے انتہائی قریب سے نظارے میں بدل دیتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
جگ مگ کرتی اینٹیں
اس کان میں سیاحوں کے لیے جو راستے اور راہداریاں بنائی گئی ہیں، ان کی تعمیر میں عام اینٹیں استعمال نہیں کی گئیں۔ اینٹوں کی شکل میں کاٹے گئے جو پتھر استعمال کیے گئے ہیں، وہ دراصل اسی کان سے نکالا گیا نمک تھا۔ یہ پتھر اکثر کافی حد تک شفاف ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے کسی بھی تعمیراتی ڈھانچے کے پیچھے اگر روشنی کی جائے، تو وہ اینٹوں سے گزر کر ایسی جگ مگ پیدا کر دیتی ہے کہ پورا منظربے حد تک خوبصورت ہو جاتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’انتظامی دفاتر بھی نمک کے‘
پاکستانی کوہستان نمک کی اس کان میں قریب ایک ہزار کارکن کام کرتے ہیں جن میں ساڑھے سات سو کے قریب نمک نکالنے کا کام کرتے ہیں اور ڈھائی سو کے قریب دیگر خدمات اور انتظامی شعبوں میں ملازمتیں کرتے ہیں۔ اس تصویر میں سالٹ مائن کے اندر چند انتظامی دفاتر دیکھے جا سکتے ہیں، جو نمک کی اینٹوں سے بنائے گئے ہیں۔ اس راہداری کی چھت پر کان کے اندرونی حصے کا پتھر اپنی اصلی حالت میں اور اصلی جگہ پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دیدہ زیب مسجد
یہ کھیوڑہ کی نمک کی کان میں بنی ایک چھوٹی سی مسجد ہے، جو دنیا بھر میں شاید اپنی نوعیت کی واحد مسلم عبادت گاہ ہے۔ یہ مسجد بھی پتھریلے نمک کو کاٹ کر بنائی گئی اینٹوں سے تیار کی گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چار دیواری اور دونوں طرف ایک ایک مینار، اس مسجد میں وہاں جانے والے مسلمان سیاِحوں کے ساتھ ساتھ عام کارکن بھی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بادشاہی مسجد بھی اور مینار پاکستان بھی
یہاں مہمانوں کے لیے قدرتی ارضیاتی حسن کے ساتھ ساتھ چند ایک دوسری چیزیں بھی انتہائی پرکشش ہیں۔ ان میں سے ایک تو نمک کی اینٹوں سے بنی مسجد ہے جبکہ چند ایسی انتہائی اہم عمارات کے ماڈل بھی وہاں موجود ہیں، جو سب کے سب نمک سے تراشی گئی اینٹوں سے بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ماڈل لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد کا ہے اور دوسرا لاہور ہی میں تاریخی مینار پاکستان کا ایک ماڈل جو اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ریستوان اور آرام کی جگہ
مقامی اور غیر ملکی سیاح جب تھک جاتے ہیں تو ان کے سستانے اور ان کی کھانے پینے سے متعلق بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کان میں ایک سروس ایریا اور ایک ریستوران بھی ہیں۔ یہ تصویر اسی سروس ایریا کی ہے، جہاں ٹرام کے بجائے پیدل چل کر کان میں آنے والے چند مہمان خریداری کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اپنی اس سیر کو یاد گار بھی بنائیں
کھیوڑہ میں نمک کی اس بہت منفرد کان کی سیر کے بعد واپس جانے سے پہلے آپ سروس ایریا میں گفٹ شاپ سے یادگار کے طور پر کئی طرح کے تحائف یا دستکاری کے نمونے بھی خرید سکتے ہیں۔ یہ دستکاری نمونے زیادہ تر ٹیبل لیمپ، لیمپ شیڈز، ایش ٹرے، شطرنج کے مہرے یا دیگر ڈیکوریشن مصنوعات ہوتی ہیں، جو پتھریلے نمک کی بنی ہوتی ہیں۔ اس کان کے اندر درجہ حرارت اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔