پاکستان میں سیاسی مبصرین اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی مرضی کی نگران حکومت قائم کر لینے کے بعد کیا اسٹیبلشمنٹ آئندہ انتخابات کے بعد بھی اپنی مرضی کی حکومت لانے میں کامیاب ہو سکے گی؟
اشتہار
ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار امتیاز عالم نے بتایا کہ پاکستان کے نظام حکومت میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا، جیسے ماضی میں چلتا رہا ہے۔ ان کے مطابق پاکسان کی جمہوری قوتوں نے میدان چھوڑ دیا ہے اور طاقتوروں کی بالادستی قبول کر لی ہے، ''ہمارے سیاست دانوں نے نئی صورتحال کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیا ہے۔ ان کو اقتدار میں ان کا حصہ درکار ہے وہ مل کر حکومت کرتے رہیں گے۔ اب عمران، نواز بلاول جو بھی آئے اسے نئی صورتحال میں ہائبرڈ نظام میں ہی چلنا ہو گا۔‘‘
امتیاز عالم سمجھتے ہیں کہ ''سویلین سپرمیسی‘‘ اب محض ایک نعرے کی حد تک باقی رہ گئی ہے۔ سیاست دانوں نے اپنی سپیس دوسروں کو دے کر معاملات طے کر لیے ہیں، ''نگران حکومتیں طاقتور سائے کے نیچے پورا معاشی نظام چلا رہے ہیں اور ہمارے منتخب وزیر اعظم فخر سے اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارہ قرار دیتے رہے ہیں اس سے اندازہ لگا لیں معاملات کس طرف جا رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں کس کی مرضی چلے گی۔‘‘
اکانومسٹ انٹٰلیجنس یونٹ کی طرف سے جاری ہونے والے جمہوریت کی عالمی درجہ بندی کے مطابق دنیا کے جمہوری ملکوں کی درجہ بندی میں پاکستان کافی پیچھے ہے۔ ای آئی یو نے پاکستان کے نظام حکومت کو 'ہائبرڈ‘ (مرکب) قرار دیا ہے۔ ادارے کے مطابق ہائبرڈ نظام والے ممالک میں کافی انتخابی بے ضابطگیاں ہوتی ہیں۔ اس ادارے نے تمام ملکوں کو مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ہائبرڈ اور آمریت میں تقسیم کیا ہے۔
ہائبرڈ نظام کی تعریف میں لکھا گیا ہے کہ ایسے ملکوں میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور امیدواروں پر حکومتی دباؤ عام ہو سکتا ہے۔ کسی ناقص جمہوریت کے مقابلے میں یہاں شہری آزادی، انتخابی نظام اور سیاسی کلچر میں زیادہ کمزوریاں ہو سکتی ہیں۔اس کے مطابق'سول سوسائٹی کمزور ہوتی ہے۔ عام طور پر صحافیوں کو ہراس اور دباؤ کا سامنا ہوتا ہے اور عدلیہ آزاد نہیں ہوتی۔ بعض مبصرین کے مطابق پاکستان کے بعض حلقوں میں 'ہائبرڈ نظام' کا عام مطلب سویلین حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ سمجھا جاتا ہے۔
تجزیہ کار جاوید فاروقی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ملک میں ہائبرڈ سسٹم ہی دیکھنے کو ملے گا۔ ان کے خیال میں نہ تو سیاسی جماعتیں اتنی طاقتور ہیں کہ اپنی بات منوا سکیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ اتنی کمزور ہے کہ کہ وہ پیچھے ہٹ جائے۔ تاہم جاوید فاروقی اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مرضی سے نگران حکومت تشکیل دے لی ہے ان کو یقین ہے کہ نگران حکومت کے معاملات میں پاکستان مسلم لیگ نون مکمل طور پر'آن بورڈ‘ ہے۔
جاوید فاروقی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہائبرڈ نظام کی واحد ذمہ دار صرف اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں بلکہ ان کے بقول سیاسی جماعتوں میں کپیسٹی کے ایشوز بھی ہیں، ''ہم نے دیکھا ہے کہ منتخب حکومتوں کو بھی سیاسی اور معاشی بحرانوں میں اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔‘‘
جاوید فارووقی سمجھتے ہیں کہ آنے والی حکومت بھی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکے گی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی حکومت بنا لینے کی استعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔ان کے مطابق اگلے الیکشنز میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آ سکتی ہے اور اس ضمن میں آزاد اراکین پارلیمنٹ اور چھوٹے پریشر گروپس کا رول کافی اہم ہو سکتا ہے، ''ہم نے دیکھا ہے کہ جب پیپلز پارٹی بہت مقبول تھی تو اسے کمزور کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کو لایا گیا۔ جب مسلم لیگ ن بہت مقبول جماعت تھی تو اس کے مقابلے کے لیے عمران خان کو لایا گیا۔ اب جبکہ عمران خان بہت مقبول ہیں تو صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان اگلے الیکشنز میں انتخابی میدان میں ہوں گے یا نہیں۔‘‘
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Farmer
26 تصاویر1 | 26
ایک سوال کے جواب میں جاوید فاروقی نے بتایا کہ عمران خان کو اس حال تک پہنچانے میں عمران خان کا اپنا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے، ''ان کی متنازعہ پالیسیوں اور بہت سی دوسری غلطیوں کے باوجود ان کی سولو فلائٹ کی خواہش اور اپنے آپ کو طاقت کا مرکز بنا لینے سے ان کی پارٹی کمزور ہوئی اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا‘‘
نگران حکومتیں اپنے روزمرہ کے امور نپٹانے اور الیکشن کمیشن کی مدد کرنے تک محدود رہیں گی یا پھر وہ اپنا دائرہ کار بڑھا لیں گی؟ اس سوال کے جواب میں جاوید فارووقی کہتے ہیں کہ اس کا حتمی جواب جاننے کے لیے ہمیں صرف چند دن اور انتظار کرنا پڑے گا۔ ان کے بقول دکھائی یوں دیتا ہے کہ اب الیکشن اگلے چھ ماہ میں ہو جائیں گے کیونکہ اگر مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن سے پہلے عام انتخابات نہ ہوئے تو اس سے کئی آئینی اور معاشی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔
ایک انگریزی اخبار سے وابستہ صحافی سعدیہ صلاح الدین کا ماننا ہے کہ نگران حکومتیں اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے دائرہ کار کو وسیع کر رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مثال کے طور پر ایک سو پینسٹھ سالہ تاریخ کے حامل لاہور کے سینٹرل ماڈل سکول کو دانش سکولوں کے حوالے کرنا یا زمینوں کی الاٹ منٹ کرنا نگران صوبائی حکومت کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔
سعدیہ صلاح الدین کی رائے میں جمہوریت کے فروغ کے لیے سب کو اپنے رویوں اور زندگی میں جمہوریت لانا ہو گی۔ ان کے خیال میں سیاست پر بے تحاشا لکھا اور بولا جا رہا ہے، ''لیکن اگر ہم سب اپنا فوکس عام آدمی طرف کر لیں تو ملکی نظام کی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم اجرتوں کے موضوع پر تحقیق کریں کالم لکھیں، ویڈیو بلاگ بنائیں تو اندازہ ہو گا کہ ملک میں غریب لوگوں کو یا تو اجرت والا کام ہی نہیں ملتا، کام ملتا ہے تو اسے اجرت بروقت نہیں ملتی اور اگر مل بھی جائے تو قانون اور آدمی کی صلاحیتوں کے مطابق نہیں ملتی۔ یہ چھوٹی سی مہم حکومت کی گوورننس، نجکاری کے مسائل اور نجی شعبے کی زیادتیوں کو بے نقاب کر سکتی ہے اور عوام اور پالیسی میکرز کو بھی شعور دیا جا سکتا ہے اور اس طرح حکومتوں پر بھی دباو آئے گا اور حکومتوں کی سروس ڈلیوری بہتر ہو سکے گیا‘