1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: سیلاب کے ایک سال بعد بھی لاکھوں بچے امدد کے منتظر

25 اگست 2023

یونیسف کے مطابق سیلاب سے متاثرہ بہت سے بچے قابل رسائی نہیں اور ایسے میں یہ لاکھوں بچے فراموش کر دیے جانے کے خدشے سے دوچار ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں تقریباﹰ چالیس لاکھ بچوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں۔

Flut in Pakistan
تصویر: Husnain AFP/AFP

اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود سے متعلق ادارے یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آئے تباہ کن سیلابوں کے گزر جانے کے ایک سال بعد بھی لاکھوں بچے ابھی تک امداد کے منتظر ہیں۔ یونیسیف نے جمعہ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ سیلاب سے متاثرہ  علاقوں میں پندرہ لاکھ بچوں کو زندگی بچانے والی غذائی امداد کی ضرورت ہے جبکہ  تقریباﹰ چالیس لاکھ  بچوں کو پینے کےصاف پانی تک رسائی نہیں۔

 پاکستان میں یونیسف کے نمائندے عبداللہ فاضل کے مطابق، ''سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رہائش پذیر کمزور بچوں نے ایک ڈراؤنا سال برداشت کیا ہے۔‘‘ اس ترجمان  نے امدادی سرگرمیوں کے لیے فنڈز کی کمی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا،'' متاثرین کی بحالی کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن بہت سے متاثرہ بچے قابل رسائی نہیں ہیں اور ایسے میں پاکستان کے یہ بچے فراموش کر دیے جانے کے خدشے سے دوچار ہیں۔‘‘

سیلاب کے باعث تعلیمی مراکز تباہ ہو جانے کے بعد لاکھوں بچوں کو حصول علم میں بھی مشکلات کا سامنا ہےتصویر: Akram Shahid/AFP/Getty Images

یونیسیف کی جانب سے یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستانی صوبہ پنجاب میں حکام دریائےستلج کے سیلاب  سے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو نکالنے کے لیے وقت کے خلاف دوڑ لگا رہے ہیں۔ یکم اگست کے بعد سے قصور اور بہاولپور کے اضلاع میں سیلاب زدہ علاقوں سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو نکالا جا چکا ہے۔

پاکستانی سیلاب متاثرین کے لیے تقریباﹰ چھ ماہ قبل جنیوا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ایک کانفرنس میں درجنوں ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے گزشتہ موسم گرما کے سیلاب سے بحالی اور تعمیر نو میں پاکستان کی مدد کے لیے 9 بلین ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا تھا۔

 لیکن زیادہ تر وعدے پراجیکٹس کے لیے قرضوں کی صورت میں تھے، جو ابھی منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں۔ یونیسیف نے ایک بیان میں کہا،''اس موسم کی مون سون کی بارشیں سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کے لیے پہلے سے ہی مشکل حالات کو مزید خراب کر رہی ہیں، جس سے افسوسناک طور پر ملک بھر میں 87 بچوں کی جانیں گئیں۔‘‘

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ایک  اندازے کے مطابق 80 لاکھ لوگ، جن میں سے نصف بچے ہیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں محفوظ پانی تک رسائی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔

عبداللہ فاضل کاکہنا ہےکہ رواں مون سون میں بارشوں کی واپسی نے ایک اور ماحولیاتی تباہی کا خدشہ بڑھا دیا ہے۔ پچھلے سال کے سیلاب سے پاکستانی معیشت کو 30 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا تھا۔  سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2022 کے موسم گرما میں آنے والے سیلاب سے پاکستان میں سترہ سو افراد ہلاک ہوئے جبکہ ملک کا  ایک تہائی سے زائد حصہ ڈوب گیا اور تقریباً 33 ملین افراد متاثر ہوئے۔

اقوم متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ سیلاب سے متاثرہ پاکستانی اضلاع کا ہنگامی دورہ کیا تھاتصویر: Muhammad Daud/AFP

سیلاب نے 30,000 اسکولوں، 2,000 صحت کی سہولیات اور 4,300 پانی کی فراہمی کے نظام مکمل تباہ کر دیے یا انہیں جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔ فاضل کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک تہائی بچے  پہلے ہی اسکول سے باہر تھے، جب کہ غذائیت کی کمی ہنگامی سطح پر پہنچ رہی تھی اور پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی تک رسائی تشویشناک حد تک کم تھی۔

جنوبی سندھ کا صوبہ گزشتہ سال سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ لیکن مقامی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کے ترجمان اجے کمار نے دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ حکام کو سیلاب سے متاثرہ اضلاع سے کوئی شکایت یا مطالبات موصول نہیں ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو ریلیف کیمپوں میں یا سڑک کے کنارے رہ رہے تھے گھروں کو لوٹ گئے ہیں کیونکہ انہیں نقصان کا معاوضہ ملا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی امدادی تنظیمیں گھروں، اسکولوں اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کی تعمیر نو اور بحالی کا کام کر رہی ہیں، ''میں کہہ سکتا ہوں کہ یہاں صورتحال معمول پر ہے۔‘‘

یونیسیف نے پاکستان اور امدادی اداروں سے بچوں اور خاندانوں کے لیے بنیادی سماجی خدمات میں سرمایہ کاری بڑھانے اور اسے برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا۔ فاضل نے کہا، ''سیلاب کا پانی چلا گیا ہے لیکن ان کی پریشانیاں اس موسمیاتی تبدیلیوں والے خطے میں برقرار ہیں۔‘‘

ش ر ⁄ ا ا ( ڈی پی اے، اے پی)

پاکستان، سیلاب گزر گیا لیکن مشکلات نہ ٹلیں

03:32

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں