عالمی ادارہ صحت اور مقامی حکام کے مطابق پاکستان میں موجودہ سیلابی صورتحال میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں تیزی سے پھیل سکتی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں بچے اور حاملہ خواتین خطرے میں ہیں۔
اشتہار
پاکستانی حکام اور عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ روز ملک میں سیلاب کے بعد صحت کے بحران کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار ایک سو ساٹھ سے زائد افراد ہلاک جبکہ تینتیس ملین سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
لاکھوں بچے اور خواتین خطرے میں، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل چلڈرن ایمرجنسی فنڈ (یونیسیف) نے کہا کہ پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں بچے اور حاملہ خواتین خطرے میں ہیں اور انہیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ اس بین الاقوامی ادارہ برائے اطفال نے ایک رپورٹ میں کہا کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں سیلاب کی وجہ سے بچوں کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ساتھ ساتھ غذائی قلت کا سامنا ہے۔
کوہ سلیمان سے آنے والا سیلاب مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان میں تباہی مچاتا سندھ کی طرف رواں
مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی
تصویر: Doaba Foundation
ضلع راجن پور میں رہائشی مکانات کی تباہی
بستی لکھا، یونین کونسل حاجی پور، ضلع راجن پور میں ایک تباہ شدہ مکان۔ ریسکیو ٹیمیں ابھی اس تباہی کا ابتدائی تخمینہ لگانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
تصویر: Doaba Foundation
یہ ملبہ کبھی ایک مکان تھا
سیلاب کا ایک بڑا ریلہ پوری بستی جھنڈا گوپنگ کو بہا کر لے گیا۔
تصویر: Doaba Foundation
حاجی پور ضلع راجن پور کا ایک گنجان آباد علاقہ ہوا کرتا تھا
ضلع راجن پور کے علاقے حاجی پور میں سیلاب نے نظام زندگی کو پوری طرح درہم برہم کر دیا۔
تصویر: Doaba Foundation
مظفر گڑھ کی ایک بستی کا تباہ شدہ مکان
بستی تو اجڑ گئی مگر مویشیوں کو قدرت نے بچا لیا۔ اس گھر کی اب صرف ایک دیوار ہی کھڑی ہے، وہ بھی لرزتی ہوئی۔
تصویر: Doaba Foundation
بستی جھنڈا گوپنگ کے بچے خالی تھالیاں لیے روٹی کے منتظر
جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع راجن پور میں سیلاب سے سب سے زیادہ اور بہت وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی، جس کے نتیجے میں کئی تحصیلوں میں بنیادی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا۔
تصویر: Doaba Foundation
اس خاندان کو ریسکیو ورکرز نے بچایا
ضلع ڈیرہ غازی خان میں تونسہ سے تعلق رکھنے والے اس گھرانے کے ارکان کو ریسکیو 1122 کے امدادی کارکنوں نے بچایا۔ ایک ریسکیو کشتی کے ذریعے متاثرین کو محفوظ مقام تک پہنچانے کی کوشش۔
تصویر: Doaba Foundation
سیلاب کی تباہ کاریوں کا اندزہ لگانے کی کوشش
دوآبہ فاؤنڈیشن کے ڈپٹی مینیجر سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے کی کوشش میں۔ یہ فاؤنڈیشن 1987ء سے دریائی علاقے کے مقامی باشندوں کو ریسکیو کارروائیوں کی تربیت دے رہی ہے۔
تصویر: Doaba Foundation
ریت کے تھیلوں سے پانی کیسے روکا جا سکتا ہے؟
پاکستان میں سیلاب جیسی کسی بھی قدرتی آفت سے بچاؤ کے لیے ضروری اقدامات کی تربیت کی بہت کمی ہے۔
تصویر: Doaba Foundation
انخلا کی کوششیں
تربیت یافتہ رضاکار بڑے بڑے بکسوں کو پانی سے بچا کر نکالنے کی کوشش میں، اپنی مدد آپ کی بنیادوں پر انخلا کی کوششیں جاری ہیں۔
تصویر: Doaba Foundation
9 تصاویر1 | 9
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں تقریباً چھ لاکھ حاملہ خواتین کو طبی دیکھ بھال اور دماغی صحت کی خدمات کی اشد ضرورت ہے۔ آئندہ ماہ سیلاب زدہ علاقوں میں تقریبا 73 ہزار تک خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش متوقع ہے، جنہیں ہنر مندوں نرسوں کے ساتھ ساتھ نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مدد کی ضرورت ہو گی۔
اشتہار
پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پھیلاؤ
پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندہ ڈاکٹر پلیتھا مہیپالا نے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او مقامی صحت کے حکام کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں فوری اور مؤثر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ ان کے بقول، ''سیلاب سے متاثرہ آبادی تک صحت کی ضروری خدمات کی جلد سے جلد رسائی یقینی بنانا اب ہماری اہم ترین ترجیحات میں شامل ہے تاکہ بیماریوں کی نگرانی کو بہتر اور اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کیا جائے۔‘‘
سیلاب، جو تباہی کی ایک داستان رقم کر گیا
03:23
علاوہ ازیں سیلاب کے نتیجے میں 888 کلینکس اور ہسپتال مکمل طور پر تباہ یا ان کو نقصان پہنچا ہے۔ انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان نے متاثرہ افراد کے لیے صحت کی خدمات تک رسائی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے تیزی سے پھیلنے کے امکان کے بارے میں بھی خبردار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوئٹرش پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں جون کے وسط سے جاری مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ چکا ہے۔
پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ ترین صوبہ سندھ کی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں چار ہزار دو سو دس میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں تاکہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور جلد کے امراض کے متاثرین کا فوری طور پر علاج کیا جائے۔ پاکستان میں ڈاکٹروں نے بھی سیلاب کے بعد بڑے پیمانے پر ذہنی صدمے کے مسائل کی نشاندہی کی ہے۔
پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کا سلسلہ جاری
حالیہ سیلابوں کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں پاکستان بھر میں گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقتصادی مشکلات کے شکار اس ملک میں آنے والی اس تازہ قدرتی آفت نے حکومت اور عوام کو مزید بدحال کر دیا ہے۔
تصویر: Shakeel Ahmed/AA/picture alliance
ملک بھر میں تباہی
یہ منظر ہے شمالی پاکستانی شہر چارسدہ کا، اس وقت پاکستان کا زیادہ تر رقبہ ایسے ہی مناظر پیش کر رہا ہے۔ پاکستان میں تحفظ ماحول کی وزیر شیری رحمان کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اس برس دوگنا بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ کچھ علاقوں میں تو چار گنا زیادہ پانی برسا۔
تصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images
جو بچ سکا بچا لیا
یہ تصویر پشاور کے قریبی علاقے کی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ ہر شخص کی کوشش ہے کہ وہ اپنے گھریلو سازوسامان کو خشکی تک پہنچا دے۔ سن 2010 میں بھی پاکستان کو بدترین سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بارہ برس قبل کی اس تباہی میں کم ازکم دو ہزار افراد مارے گئے تھے۔ ناقدین کے بقول حکومت پاکستان نے اگر ماضی سے سبق سیکھا ہوتا تو حالیہ تباہی کا پیمانہ اتنا بڑا نہ ہوتا۔
تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance
گاؤں کے گاؤں بہہ گئے
لاکھوں پاکستانیوں کی طرح یہ شخص بھی بے گھر ہو چکا ہے۔ مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جون میں شروع ہوا، جو بدستور جاری ہے۔ اس دوران سیلابوں کی وجہ سے دس لاکھ مکان منہدم یا متاثر ہو چکے ہیں۔ سیلاب اتنے شدید آئے کہ گاؤں کے گاؤں بہہ گئے۔ پاکستانی حکام کے مطابق حالیہ تباہ کاریوں کے نتیجے میں کم ازکم تینتیس ملین افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Amer Hussain/REUTERS
تباہی پر تباہی
پاکستان میں سیلابوں کی وجہ سے اتنے بڑے پر تباہی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب یہ جنوب ایشیائی ملک پہلے ہی اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ مہنگائی اور افراط زر نے لوگوں کو تنگ کر رکھا تھا کہ یہ سیلاب پاکستانیوں کے لیے مزید مشکلات لے آئے ہیں۔ اب تو بنیادی ضروریات زندگی اور خوردونوش کی اشیا کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔
تصویر: Fayaz Aziz/REUTERS
مالی مشکلات میں اضافہ
اس قدرتی آفت کی وجہ سے پاکستان بھر میں ایک سوگ کا عالم ہے۔ لاکھوں لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی جہاں پانی میں بہہ چکی ہے، وہیں زرعی اراضی کو بھی شدید نقصان ہوا ہے۔ غریب کسانوں کو اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کرنے کی خاطر حکومتی مدد کی ضرروت ہو گی، جو پاکستان کے موجودہ معاشی حالات میں ایک چیلنج سے کم نہیں۔
تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance
کھلے آسمان تلے مجبور لوگ
ان سیلابوں کی وجہ سے بے گھر ہو جانے والے ہزاروں پاکستانی اس وقت کھلے آسمان تلے مدد کے منتظر ہیں۔ کئی مقامات پر عارضی پناہ گاہوں کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ تاہم سیلاب تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ حکام کے مطابق بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Abdul Majeed/AFP
عالمی امداد آنا شروع
ترکی اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے خیمے اور ضروریات زندگی کی اہم اشیا پاکستان روانہ کی جا رہی ہیں۔ دیگر ممالک بھی پاکستان کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے فعال ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر متاثرہ علاقوں میں ہر جا پانی ہی پانی ہے، جس کی وجہ سے امدادی ہیلی کاپٹرز کو لینڈ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Naveed Ali/AP Photo/picture alliance
امدادی کاموں میں مشکلات
حالیہ سیلابوں نے پاکستان کے چاروں صوبوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ بے شمار پل اور سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں۔ اس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام متاثر ہوا اور فوری طور پر متاثرہ علاقوں تک امدادی سامان پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم ایک اچھی خبر یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ ہفتے سے بارشوں کا سلسلہ تھم جائے گا۔
تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
مقامی حکام نے ایسی ہنگامی طبی ٹیموں کو خصوصی طور پر تعینات کیا ہے، جو اس وقت خیموں اور عارضی کیمپوں میں مقیم بہت سے سیلاب متاثرین تک ادویات پہنچانے اور پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن
پاکستانی حکام کو ریسکیو کے عمل میں پاکستانی فوج، امدادی کارکنوں اور رضاکاروں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کی جانب سے متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستانی فوج کی جانب سے بدھ کے روز جاری کردہ ایک بیان کے مطابق فوجی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سیلاب زدگان کو نکالا جا رہا ہے اور دور دراز علاقوں میں خوراک کا سامان پہنچایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں مدد کے لیے ساڑھے چھ ہزار فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ امدادی کارکن صوبہ سندھ اور پنجاب کے دور دراز دیہات میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لیے کشتیوں کا استعمال بھی کر رہے تھے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بیماریوں کے پھیلاؤ کی وارننگ سے ایک دن قبل ہی پاکستان میں حکومتی عہدیداروں نے کہا کہ ملک کے سیلاب سے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے تقریباﹰ دس ارب ڈالر لگیں گے۔
ع آ / ا ا (اے پی، ای پی ڈی)
پاکستان میں سیلاب، ہر طرف تباہی اور ہلاکتیں
پاکستان میں مون سون کی شدید بارشوں اور سیلابوں نے اندازوں سے کہیں زیادہ تباہی مچا دی ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر اور مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد تقریبا 800 تک پہنچ چکی ہے۔
تصویر: PPI/ZUMA Press/picture alliance
پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث تباہ کاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ آئندہ چند روز میں مزید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
تصویر: Zahid Hussain/AP Photo/picture alliance
جون کے وسط سے جاری مون سون بارشوں کے سلسلے کے نتیجے میں نو ہزار سے زائد گھر تباہ، سات سو سے زائد افراد ہلاک اور تقریباﹰ تیرہ سو افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
تصویر: Ismail Sasoli/Dawn News
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شدید بارشوں نے نظام زندگی مفلوج کر دیا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مسافر ٹریفک جام اور ریلوے سروسز کی معطلی کی وجہ سے پھنس گئے ہیں۔
تصویر: Zahid Hussain/AP Photo/picture alliance
جنوبی پنجاب، صوبہ سندھ سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی حالیہ شدید بارشوں نے گزشتہ کئی برسوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
تصویر: Zahid Hussain/AP Photo/picture alliance
ریسکیو ورکرز کو دور دراز کے علاقوں تک پہنچنے اور وہاں سے لوگوں اور مویشیوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: ISPR Balochaistan
بلوچستان کے علاقوں خضدار اور لسبیلہ میں بڑے پیمانے پر مکانات زمیں بوس ہو چکے ہیں۔
تصویر: Ismail Sasoli/Dawn News
دارالحکومت کوئٹہ سے کراچی جانے والی مرکزی شاہراہ ایک ہفتے سے بند ہے اور ریلوے کی سروسز بھی معطل کردی گئی ہیں۔
تصویر: Zahid Hussain/AP Photo/picture alliance
بلوچستان اور دیگر علاقوں میں ڈیڑھ ماہ سے جاری بارشوں نے گوادر تک کے 34 اضلاع میں تباہی مچائی ہے۔
تصویر: AKRAM SHAHID/AFP
حالیہ بارشوں اور سیلاب نے صوبہ بلوچستان کو خوفناک تباہی سے دوچار کیا ہے۔ ایک گاوں کے گھروں کی تباہی کا اندازہ اس کے درو دیوار سے لگایا جا سکتا ہے۔
تصویر: Ismail Sasoli/Dawn News
خضدار کے ایک نواحی گاوں میں یہ بچہ اپنے تباہ حال گھر کے ملبے کے درمیان کھڑا ہے۔ اس کے چہرے سے یہ سوچ نمایاں ہے کہ اب اس کا مستقبل کیا ہو گا؟
تصویر: Ismail Sasoli/Dawn News
اس بچے کی آنکھیں اور ویرانی خود تباہی کی داستان سنا رہی ہیں۔ بلوچستان کے سیلابی علاقوں میں وبائی امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں۔
تصویر: Ismail Sasoli/Dawn News
فوجی اہلکار سیلاب سے متاثرہ افراد میں کھانا تقسیم کر رہے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں متعدد فلاحی و مذہبی تنظیمیں بھی حکومتی مدد کے بغیر لوگوں میں راشن اور کھانا فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔
تصویر: ISPR Balochaistan
بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور مشکلات سے دوچار لوگوں کو فوجی اہلکاروں محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔ ایک سکیورٹی اہلکار پانی سے بچے کو نکال کر اس کے والد کے حوالے کر رہا ہے۔
تصویر: ISPR Balochaistan
اس گھر کا مکین فکر مند ہے کہ سیلاب اور بارش کی تباہی سے اجڑ جانے والا گھر اب کیسے دوبارہ تعمیر کرے گا؟