افغان سکیورٹی فورسز نے اتوار کو بھاری مقدار میں پاکستان سے افغانستان لایا جانے ’’والا دھماکا خیز‘‘ مواد پکڑ لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بم سازی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیائی مادے کو افغانستان پہنچایا جا رہا ہے۔
اشتہار
ایک افغان سکیورٹی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پاکستان سے سبزی کے ایک ٹرک کے ذریعے بم سازی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیائی مادے ’امونیم نائٹریٹ‘ کی 156 بوریاں افغانستان لائی جا رہی تھیں، جنہیں ضبط کر لیا گیا۔ پاکستان سے ’بم سازی‘ کے لیے درکار کیمیائی مادے کے اتنی بڑی مقدار میں افغانستان پہنچانے کی کوشش کو ناکام بنائے جانے کا یہ پہلا واقع ہے۔
قالین سازی کی افغان صنعت مشکل کا شکار
افغانستان کی کارپٹ بنانے کی قدیم صنعت طالبان کے ساتھ جنگ اور پاکستان کی جانب سے سرحدی نگرانی بڑھانے کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے۔ گزشتہ ایک سال میں قالینوں کی فروخت میں لگ بھگ پچاس فیصد کمی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
افغان قالین خوبصورت اور آرام دہ
افغان قالین دنیا بھر میں خوبصورتی اور اعلیٰ معیار کے باعث بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ اب بھی افغان اقتصادیات میں کارپٹس کی برآمدات ایک اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی میں یہ برآمدات ستائس فیصد سے کم ہو کر چھ فیصد رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
قالین کی صنعت متاثر
جنگ، مفلسی اور ذرائع آمد ورفت کی کمی نے قالین کی صنعت کو متاثر کیا ہے جس کی تاریخ پچیس سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے اپنی والدہ کو افغانستان سے قالین بھجوایا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
قالین ساز فیکٹری
کابل کی ایک قالین ساز فیکٹری میں خواتین اون بنتی ہیں اور مرد اون کو اکٹھا کرتے ہیں۔ اس فیکٹری کے مینیجر دلجام منان کا کہنا ہے،’’ ہم نے بہت سے خریداروں کو بلایا ہے لیکن وہ نہیں آتے کیوں کہ وہ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/M. Ismail
تشدد کے واقعات میں اضافہ
افغستان میں حالیہ کچھ عرصے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سن دوہزار سولہ اور سترہ کے درمیان افغانستان کی رجسٹرڈ برآمدات میں قالینوں کی ایکسپورٹ چوتھے نمبر پر تھی اور ان کی کل مالیت 38 ملین ڈالر تھی۔ ان میں سے 85 فیصد قالین پاکستان کو برآمد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
افغان کارپٹوں کی مانگ غربت کے باعث نہیں بڑھ پاتی
پہلے افغانستان میں قالین کی برآمدات 89.5 ملین ڈالر تک ریکارڈ کی گئی تھی۔ اندرونی طور پر بھی افغان کارپٹوں کی مانگ غربت کے باعث نہیں بڑھ پاتی۔ بہت کم افغان شہری ستر سے ڈھائی سو ڈالر فی سکوائر میٹر قالین خرید نے کی سکت رکھتے ہیں۔ آٹھ برس قبل جب افغانستان میں نسبتاً امن تھا تب قالین کی برآمدات 150 ملین ڈالر تھی۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
پاکستانی تاجر
افغان کارپٹس، نامی ایک دکان کے مالک پرویز حسین کا کہنا ہے، ’’پاکستانی تاجر افغانستان سے کارپٹ خرید کر دس سے پندرہ فیصد کماتے ہوئے ان قالیوں کو برآمد کر دیتے ہیں۔‘‘ حسین کے بقول افغانستان میں قالینوں کو دھونے کا طریقہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کارپٹ یہاں آتے ہیں، دھلتے ہیں اور برآمد کر دیے جاتے ہیں۔ حسین کی رائے میں بہت سے افغان تاجر پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور یہاں سے قالین درآمد کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
پاکستان کے ساتھ تعلقات
پاکستان اور اس کی بندرگاہوں پر انحصار، سرحد پر بڑھتے کنٹرول اور دہشت گردوں کی در اندازی کی وجہ سے افغان تاجر مشکلات کا شکار ہیں۔ گزشتہ برس طورخم بارڈر چالیس دن تک بند رہا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے
کابل میں دکاندار احسان کا کہنا ہے کہ اب کابل میں بہت کم غیر ملکی نظر آتے ہیں۔ اس کی دکان میں 50 سال پرانے قالین بھی دستیاب ہیں۔ احسان کا کہنا ہے کہ پہلے ایک دن میں وہ پانچ قالین فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے لیکن اب بہت مشکل ہے کیوں کہ یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے۔
ب ج/ ع ا، روئٹرز
افغان صوبے ننگرہار کے گورنر کے ایک ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ خفیہ اہلکاروں نے سبزیوں کی بوریاں میں چھپایا گیا قریب آٹھ ٹن مواد برآمد کیا۔ ترجمان نےکہا کہ یہ کیمیائی مواد ممکنہ طور پر عسکریت پسندوں تک پہنچایا جانا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ٹرک پاکستان افغان سرحدی کراسنگ طورخم سے افغانستان میں داخل ہوا۔ واضح رہے کہ امونیم نائٹریٹ ایک کھاد ہے، تاہم سلامتی کی وجوہ کی بنا پر افغانستان میں اس کی درآمد پر پابندی عائد ہے۔ یہ کھاد دھماکا خیز مواد کی تیاری میں استعمال ہو سکتی ہے۔
افغانستان کو طالبان، داعش اور حقانی نیٹ ورک جیسے مسلح گروہوں کے حملوں کا سامنا ہے جب کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر تواتر سے دہشت گردی کی معاونت اور پرتشدد کارروائیوں کے لیے اپنی سر زمین کے استعمال کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ رواں برس مئی میں افغان دارالحکومت کابل میں ایک بڑا اور خون ریز ٹرک بم حملہ کیا گیا تھا، جس میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
گزشتہ روز طالبان نے عیدالفطر کے موقع پر افغانستان بھر میں تین روزہ فائربندی کا اعلان کیا تھا۔ طالبان کی جانب سے اس انداز کا یہ پہلا اعلان تھا۔ اس سے کچھ روز قبل افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف یک طرفہ طور پر فائربندی کا اعلان کیا تھا۔
طورخم کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ کی بندش
پاکستان اور افغانستان کے مابین طورخم کی سرحدی گزرگاہ پر پاکستانی حکام کی طرف سے خار دار باڑ لگانے کے تنازعے کے باعث یہ بارڈر کراسنگ گزشتہ کئی دنوں سے بند ہے، جس کی وجہ سے سرحد پار آمد و رفت اور مال برداری بھی معطل ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
سرحد کی طرف رواں
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سامان کی مال برداری کا ایک بہت بڑا حصہ طورخم کی سرحد کے ذریعے ہی عمل میں آتا ہے۔ اس تصویر میں بہت سے ٹرک اور ٹرالر طورخم کی طرف جاتے دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ایسی ہزاروں مال بردار گاڑیاں پہلے ہی کئی دنوں سے اس شاہراہ پر بارڈر دوبارہ کھلنے کے انتظار میں ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
باب خیبر
طورخم بارڈر پر پاکستانی حکام کی طرف سے سرحد کے ساتھ پاکستانی علاقے میں خار دار باڑ لگانے کے منصوبے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے کے حل کے لیے اسی ہفتے خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ اور خیبر رائفلز کے کمانڈنٹ کی افغان پولیس کے کمانڈر سے بات چیت بھی ہوئی لیکن اطرف کے مابین کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
تصویر: DW/D.Baber
بندش کا مطلب تجارتی جمود
پاکستان افغان سرحد کی بندش سے متعلق تنازعے کا سب سے زیادہ نقصان دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو بھی پہنچ رہا ہے اور ان ڈارئیوروں کو بھی جو پچھلے کئی دنوں سے انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
تصویر: DW/D.Baber
بارڈر کھلنے کا انتظار
طورخم بارڈر کی بندش کے باعث اس سرحدی گزر گاہ کو جانے والی شاہراہ پر دونوں طرف ہزاروں کی تعداد میں کئی طرح کے تجارتی سامان سے لدی گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں، جن کے ڈرائیور اس انتظار میں ہیں کہ بارڈر کھلے تو وہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔
تصویر: DW/D.Baber
کراچی سے کابل تک پریشانی
بارڈر کی بندش کے نتیجے میں ایک طرف اگر شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کی کئی کئی کلومیٹر طویل قطاریں نظر آتی ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں کراچی سے لے کر افغانستان میں کابل تک ہزاروں تاجر بھی اس لیے پریشان ہیں کہ یہ صورت حال اب تک ان کے لیے کروڑوں کے نقصان کا سبب بن چکی ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
کئی دنوں سے بھوکے ڈرائیور
سرحد کی بندش کے باعث مال بردار گاڑیوں کے ہزاروں ڈرائیوروں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ وہ اپنی گاڑیوں کو چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتے اور جہاں وہ ہیں، وہاں انہیں معمول کی خوراک دستیاب نہیں۔ ایسے میں انہیں سڑک کنارے بیچی جانے والی اشیاء اور کچھ پھل وغیرہ خرید کر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
گرمی میں پیاس
مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے پاس ان کی گاڑیوں میں عام طور پر اشیائے خوراک یا مشروبات کا کوئی ذخیرہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں شدید گرمی میں اگر ممکن ہو سکے تو وہ اپنی پیاس چائے پی کر بجھا لیتے ہیں۔ اس تصویر میں اپنے ٹرک کے نیچے بیٹھے دو افراد اپنے لیے چائے بنا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
گرمی میں ٹرک کا سایہ بھی غنیمت
پاکستان سے روزانہ بے شمار ٹرک اور ٹرالر تجارتی اور تعمیراتی سامان کے ساتھ ساتھ تازہ پھل اور سبزیاں لے کر افغانستان جاتے ہیں۔ کئی ڈرائیوروں کو خدشہ ہے کہ طورخم کی سرحد کی بندش اب دنوں سے نکل کر ہفتوں کی بات بن سکتی ہے۔ اس تصویر میں محض انتظار کرنے پر مجبور ایک ٹرک ڈرائیور اور اس کا ساتھی دوپہر کی گرمی میں سستانے کے لیے اپنے ٹرک کے نیچے زمین پر سو رہے ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
8 تصاویر1 | 8
پاکستانی سرحد سے ملحق افغان صوبے ننگرہار میں طالبان کے ساتھ ساتھ شدت پسند تنظیم داعش کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ افغان حکومت نے طالبان کے خلاف وقتی طور پر کارروائیاں روکنے کے اعلان میں کہا تھا کہ داعش کے عسکریت پسندوں کو تاہم اس دوران نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔