1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان سے ازبکستان تک ریلوے لائن کا منصوبہ کتنا قابل عمل؟

18 جولائی 2023

پاکستان، افغانستان اور ازبکستان نے تینوں ملکوں کے درمیان ریلوے لائنز تعمیر کرنے کے حوالے سے ایک ’جوائن پروٹوکول‘ پر دستخط کر دیے ہیں۔

Afghanistan l Züge, Gleise
تصویر: Railway Department of Afghanistan

پاکستان، افغانستان اور ازبکستان اس معاہدے کے حوالے سے پرجوش نظر آتے ہیں لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ افغانستان میں مکمل امن کے بغیر خطے میں کوئی بھی اس طرح کا پروجیکٹ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی منصوبے کے مطابق ان تینوں ملکوں کے درمیان 700 کلومیٹر سے زائد طویل یہ ریلوے لائن ازبکستان کے علاقے ترمز سے ہوتی ہوئی مزار شریف اور لوگر آئے گی اور پھر وہاں سے یہ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم میں اختتام پذیر ہو گی۔

پروجیکٹ کے لیے گرم جوشی اور مشکلات

واضح رہے کہ افغانستان سے حالیہ ہفتوں میں کالعدم تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں نے پاکستان آرمی پر حملے کیے ہیں جبکہ اس ملک میں داعش بھی دوبارہ سے منظم ہو رہی ہے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ ماضی میں 'ترکمانستان، افغانستان اور پاکستان پائپ لائن‘ جسے پروجیکٹ کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جنگ زدہ ملک میں سلامتی کی صورت حال بہت ابتر تھی۔ تاہم خطے کے تینوں ممالک اس حوالے سے بہت پر امید ہیں اور ان کو یقین ہے کہ یہ پروجیکٹ مکمل ہو گا۔

اسلام آباد کے چند سفارتی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''یہ پروجیکٹ ازبکستان کے صدر نے 2021 میں ساؤتھ ایشیا اور وسطی ایشیائی کانفرنس کے دوران پیش کیا تھا۔ یہ پروجیکٹ نہ صرف ازبکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہے بلکہ یہ افغانستان اور خطے کے دوسرے ممالک کے لیے بھی بہت سود مند ہو گا۔ اس سے نہ صرف ساؤتھ اور سینٹرل ایشیا آپس میں منسلک ہو جائیں گے بلکہ مشرقی یورپ تک اس ریلوے لائن کی تعمیر کے بعد تجارت کی جا سکتی ہے۔‘‘

تصویر: Railway Department of Afghanistan

 ان سفارتی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ اس وقت ازبکستان اپنی مصنوعات کو ایران، روس اور پاکستان کے ذریعے بیرونی دنیا میں بھیج رہا ہے۔ ان ذرائع کا کہنا تھا کہ اس ریلوے لائن کی تعمیر کے بعد ازبکستان کو اپنی مصنوعات باہر بھیجنے میں بہت آسانی ہو جائے گی۔

ماضی میں ایسے تمام علاقائی پروجیکٹ، جو افغانستان سے ہو کر گزرنے تھے، انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی ایک وجہ افغانستان میں امن کی خستہ صورتحال ہے تاہم ان سفارتی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان طالبان نے حالیہ ملاقاتوں میں اس بات کی ضمانت دی ہے کہ اس ریلوے لائن کی ہر حالت میں حفاظت کی جائے گی۔

 ان ذرائع کا دعوی ہے کہ افغانستان بھی اس پروجیکٹ میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہا ہے کیونکہ اس پروجیکٹ سے افغانستان کو بھی بہت فائدہ ہو گا۔

پروجیکٹ کی کامیابی پر سوالیہ نشان

 تاہم افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے ناقدین کا خیال ہے کہ جب تک افغانستان میں ایک وسیع البنیاد جمہوری حکومت قائم نہیں ہوتی، اس وقت تک کوئی بھی ایسا پروجیکٹ، جس میں افغانستان کی شرکت ہو، وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔

 افغانستان کے صوبے پکتیا، میدان وردک، خوست اور لوگر میں ماضی میں گورنر کے فرائض انجام دینے والے محمد حلیم فدائی اس پروجیکٹ کے حوالے سے پر امید نہیں۔ محمد حلیم فدائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح کا پروجیکٹ سابق صدر اشرف غنی نے بھی 2018 میں پیش کیا تھا اور انہوں نے ایک وسیع امن منصوبہ پیش کیا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان میں امن کیا جائے اور مختلف میگا پروجیکٹس پایا تکمیل تک پہنچائے جائیں، جس میں یہ ریلوے لائن کا پروجیکٹ اور ترکمانستان افغانستان پاکستان پائپ لائن بھی شامل تھی۔‘‘

محمد حلیم فدائی کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان میں پاکستانی طالبان بھی سرگرم ہیں جبکہ داعش بھی افغانستان کے امن کے لیے خطرہ ہے، ''ایسی صورتحال کے پیش نظر جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا اور وہاں پر وسیع البنیاد جمہوری حکومت قائم نہیں ہوتی، کوئی بھی علاقائی منصوبہ خطے میں پایا تکمیل تک نہیں پہنچے گا۔‘‘

ٹی ٹی پی اور داعش خطرہ ہیں

 اسلام اباد کے پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن بھی محمد حلیم فدائی کے اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ٹی ٹی پی پہلے ہی پاکستانی فوج پر حملے کر رہی ہے اور اگر پاکستان سے کوئی ٹرین افغانستان کے راستے گزرے گی، تو ٹی ٹی پی یقیناً اس پر حملہ کرے گی۔ لہذا جب تک پاکستان افغان طالبان کے ذریعے ٹی ٹی پی کو لگام نہیں دیتا، اس منصوبے پہ عمل کرنا مشکل ہو گا۔‘‘

 ڈاکٹر امان میمن کے مطابق ایک اور مسئلہ افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کا ہے، ''اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کو لگام دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو پھر بھی وہ داعش کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ داعش نہ پاکستان کے کنٹرول میں ہے اور نہ افغان طالبان کے کنٹرول میں ہے۔‘‘

ٹیکنیکل صلاحیت کتنی ہے؟

کئی ناقدین یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا پاکستان کے پاس اتنی ٹیکنیکل صلاحیت ہے کہ وہ اس پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے اور کیا اس پروجیکٹ کے حوالے سے جو خطیر لاگت آئے گی، اس کے لیے پاکستان کے پاس پیسے ہیں؟ سفارتی ذرائع کا کہنا یہ ہے اس پروجیکٹ کے لئے رقم کا ایک بڑا حصہ ازبکستان دے رہا ہے، جو پہلے ہی افغانستان کی سرحد تک ریلوے لائن بچھا چکا ہے۔

ٹیکنیکل سوالات کے حوالے سے یہ بھی بات کی جا رہی ہے کہ پاکستانی ریلوے لائن میں برطانوی گیج ہے اور ازبکستان میں روسی گیج۔ اس حوالے سے پاکستان ریلوے کے ایک سابق اعلی افسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بڑا مسئلہ نہیں۔ تاہم اس خطے کی جغرافیہ ایسی ہے کہ شاید پاکستان اور ان دونوں ممالک کو ممکنہ طور پر سرنگیں بنانی پڑیں، جن کی وجہ سے اس منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘

بھارت کو بھی شامل کیا جائے

اس افسر کا کہنا تھا کہ لاگت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارت کو بھی اس منصوبے میں شامل کرنا پڑے گا، '' بھارت وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت کرنا چاہتا ہے اور پاکستان اور افغانستان درمیان میں ہیں۔ اگر بھارت کو وسطی ایشیائی ریاستوں تک پاکستان کے ذریعے رسائی مل جائے اور وسطی ایشیائی ممالک اور بھارت کے درمیان تجارت شروع ہو جائے تو اس سے نہ صرف بھارت اور پاکستان بلکہ پورے خطے کو فائدہ ہو گا اور اس کی لاگت کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں