1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے امریکا ڈاکٹری کے لیے جانے والوں میں نمایاں کمی

7 جولائی 2020

ایک تازہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں پاکستان اور ایران جیسے مسلم ممالک سے امریکا میں ڈاکٹری کے لیے جانے والوں میں پندرہ فیصد کمی آئی ہے۔

تصویر: Reuters/L. Nicholson

امریکا میں ڈاکٹروں کی ایک چوتھائی تعداد بین الاقوامی میڈیکل گریجویٹس پر مشتمل ہے۔ انہیں امریکا میں کام کرنے کے لیے کئی امتحانات پاس کرنے ہوتے ہیں اور پھر دو یا تین سال کے لیے ہسپتال میں تربیتی ملازمت کرنا ہوتی ہے۔

پچھلے سال امریکا میں ایسے ڈاکٹروں میں ساڑھے چار فیصد تعداد کا تعلق بیرون ملک سے تھا، جن میں روایتی طور پر اکثریت کا تعلق پاکستان، مصر اور ایران سے رہا ہے۔

امریکا میں سن دو ہزار نو سے دو ہزار پندرہ تک ڈاکٹری کے امتحان کے لیے مسلم ممالک کے امیدواروں کی تعداد بڑھتی رہی۔ لیکن پھر صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سن دو ہزار سترہ اور اٹھارہ میں اس رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔

جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس کی بڑی وجہ ٹرمپ حکومت کی طرف سے بعض مسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حکومتی پالیسوں کے باعث امریکا میں مسلم ممالک کے طبی ماہرین کو ملازمت حاصل کرنے اور ویزے کے معیارات پورے کرنے میں مشکلات بڑھ گئی ہیں۔  

تصویر: picture-alliance/AP/A. Brandon

امریکا میں وقت کے ساتھ ساتھ مختلف وجوہات کے باعث ڈاکٹروں کی تعداد ناکافی ہوتی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دیگر ملکوں سے میڈیکل کی پڑھائی کے لیے آنے والوں  میں کمی کے رجحان کے باعث اب ملک میں قابل ڈاکٹروں کی مزید قلت پیدا ہو رہی ہے۔

ایسوسی ایشن آف امریکن میڈیکل کالجز کے مطابق اس رجحان کو نہ روکا گیا تو ملک میں سن دو ہزار بتیس تک  ایک لاکھ بائیس ہزار ڈاکٹروں کی کمی پیدا ہو سکتی ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق مریض زیادہ اور ڈاکٹر کم ہونے کا ایک اثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈاکٹروں کی تنخواہیں اور کمائی میں خاصا اضافہ ہوا ہے، جس کا بوجھ آخر کار مریضوں کی جیب پر ہی پڑتا ہے۔

امریکا میں ماہرین نے خبردار کیا ہے اگر بیرون ملک سے ڈاکٹر آنا کم ہوتے گئے تو لوگوں کی طبی نگہداشت میں مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے جو لوگ امریکا آنا چاہتے تھے، اب وہ کینیڈا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور برطانیہ جیسے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں۔

 

ش ج، ا ا (اے ایف پی)                      

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں