پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں سے ہر سال ہزارہا شہری بہتر سماجی اور اقتصادی مستقبل کی خاطر ترک وطن کرتے ہوئے ترقی یافتہ مغربی ممالک، خاص کر یورپ کی طرف قانونی یا غیر قانونی نقل مکانی کی کوشش کرتے ہیں۔
اشتہار
ماہرین کے مطابق پاکستان کو اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم کی صورت میں سالانہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں عام شہری، خاص طور پر نوجوان مرد، اندرون ملک پائے جانے والے طرح طرح کے مسائل کا حل اس طرح نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ طرح ترک وطن کر کے زیادہ تر امریکا، کینیڈا یا پھر کسی یورپی ملک چلے جائیں۔
اس طرح کے ترک وطن کے لیے اپنائے جانے والے سفری راستوں میں سے قانونی طریقہ کار سے کہیں زیادہ تناسب غیر قانونی راستوں اور ذرائع کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں عام شہری، خاص طور پر نوجوان مرد کسی بھی طرح ترک وطن کے کوشش کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو نے اسلام آباد میں اپنا ایک نجی کلینک چلانے والی ماہر نفسیات ثانیہ اختر سے ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا کہ بہت سے پاکستانی شہری آخر پاکستان میں رہتے ہوئے غیرمطمئن کیوں ہوتے ہیں؟
یونان میں موجود پاکستانی مہاجرین کو کیا معلوم ہونا چاہیے؟
04:49
اس سوال کے جواب میں ثانیہ اختر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان سے مغربی ممالک خاص کر یورپ کی جانب ترک وطن اور انسانی اسمگلنگ کی اہم ترین وجہ معاشی حالات ہیں۔ ایسے تارکین وطن کی اکثریت کم تعلیمی قابلیت اور محدود پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہے۔ لوگ امیر صنعتی ممالک کا رخ اس لیے کرتے ہیں کہ وہاں بظاہر معمولی کام کاج کا معاوضہ بھی پاکستان میں اسی نوعیت کے کام کی اجرت کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور پر بیرون ملک روزگار کے متلاشی پاکستانی شہری ایک خواب کے تعاقب میں ہوتے ہیں۔ ان کا یہ خواب وطن میں بے روزگاری سے نجات اور مقامی طور پر کم آمدنی کے بہتر متبادل کی تلاش ہوتا ہے۔‘‘
ثانیہ اختر کے مطابق ترک وطن پر آمادہ پاکستانی شہری زیادہ تر بڑے کنبوں کے ارکان، بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے اور مڈل کلاس کو دستیاب روزمرہ کی آسائشوں سے محروم ایسے انسان ہوتے ہیں، جو بہتر مستقبل کے لیے ایجنٹوں کو بھاری رقوم ادا کر کے اور خطرناک راستوں سے ہوتے ہوئے خوشحال زندگی کی تلاش میں اپنی جانیں بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے جو لوگ کسی نہ کسی منزل پر پہنچ بھی جاتے ہیں، انہیں بھی کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر بیرون ملک غیر قانونی قیام کی وجہ سے میزبان ملک میں گرفتاری اور ملک بدری کا مسلسل خطرہ، چھپ کر کام کرنے کی وجہ سے ملنے والی اوسط سے کم اجرت اور مختلف ایجنٹوں کے ہاتھوں استحصال۔ ثانیہ اختر کے بقول ان حالات میں ایسے پاکستانی تارکین وطن کے لیے کم وقت میں زیادہ خوشحالی اور جلد وطن واپسی دونوں کے امکانات بہت محدود ہو جاتے ہیں۔
کتنے پاکستانیوں کو یورپ سے نکال دیا گیا؟
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔
پاکستان سے ترک وطن کی کوشش کرنے والے اور راولپنڈی کے رہائشی سینتالیس سالہ شاہد نامی ایک شہری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے گھر میں ان کے علاوہ آٹھ بہن بھائی اور بھی ہیں۔ شاہد اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اور ان کے والد کا انتقال برے مالی حالات میں اس وقت ہو گیا تھا جب شاہد کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔ یوں شاہد کو تعلیم چھوڑ محنت مزدوری شروع کرنا پڑی۔ شاہد نے بتایا کہ ان کے خاندان کی آمدنی کم تھی اور اخراجات زیادہ۔ اس لیے انہوں نے اپنا آبائی مکان بیچ کر اس مقصد کے لیے ایک ٹریول ایجنٹ کو اٹھارہ لاکھ روپے دیے کہ وہ انہیں یورپ پہنچا دے۔
لیکن اپنا آبائی مکان فروخت کر دینا بھی شاہد کے کام نہ آیا۔ ’’وہ ٹریول ایجنٹ تین دن تک تو مجھے سفر کراتا رہا۔ پھر وہ مجھے کراچی پہنچا کر ایسا غائب ہوا کہ اس کا کوئی پتہ ہی نہ چلا۔ میں نے پولیس میں رپورٹ بھی درج کرائی لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔‘‘ اب شاہد کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ساتھ اس دھوکا دہی سے کبھی نہ بھولنے والا سبق تو سیکھ لیا ہے، لیکن اس کی انہیں ’بہت زیادہ قیمت‘ چکانا پڑی۔
راولپنڈی میں ایک ٹریول ایجنسی کے مالک ایاز شیخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا کام لوگوں کو ان کی منزلوں تک پہنچانا ہے۔ یہ الزام غلط ہو گا کہ ہر ٹریول ایجنٹ غیر قانونی کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میرا ذاتی تجربہ ہے کہ لوگ ہمارے پاس آ کر اصرار کرتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے اور چاہے جتنی بھی رقم لگے، بس انہیں کسی نہ کسی طرح یورپ یا امریکا بھجوا دیا جائے۔ جو ٹریول ایجنٹ انسانوں کی اسمگلنگ کرتے ہیں یا دھوکا دہی سے کام لیتے ہیں، انہیں سزا ملنا چاہیے لیکن سارا قصور صرف کسی ٹریول ایجنٹ کا تو نہیں ہو سکتا۔‘‘
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
10 تصاویر1 | 10
پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ اور غیر قانونی ترک وطن کی روک تھام وفاقی تحقیقاتی ایجنسی یا ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے اس وفاقی ادارے کے اسلام آباد میں تعینات ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس ایجنسی کی ’ریڈ بُک‘ کے مطابق سن دو ہزار چودہ میں ملک میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروپوں کی تعداد ایک سو اکتالیس تھی، جو اب اور زیادہ ہو چکی ہے۔
ایف آئی اے کے اس اہلکار کے مطابق ان گروپوں میں سے زیادہ تر فیصل آباد، سیالکوٹ، گجرات، گجرانوالہ، راولپنڈی اور منڈی بہاؤلدین جیسے شہروں میں فعال ہیں۔ اس اہلکار نے بتایا کہ یہ گروہ اکثر ایران اور ترکی کے راستے لوگوں کو یورپ پہنچانے کے لیے انہیں پاکستانی صوبہ بلوچستان میں پنجگور، چاغی اور تربت جیسے علاقوں سے گزار کر ایران اسمگل کرتے ہیں۔
زمینی راستوں سے پاکستان سے غیر قانونی ترک وطن کتنا خطرناک ہوتا ہے، اس کی ایک مثال اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس کی رہائشی آمنہ بی بی کی کہانی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹا دو سال قبل ایک ٹریول ایجنٹ کے ذریعے ترکی گیا تھا، لیکن آج تک نہ تو آمنہ بی بی کو اپنے اس بیٹے کی کوئی خبر ملی اور نہ ہی اس ٹریول ایجنٹ کا کوئی پتہ چلا۔ اس پاکستانی خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے اپنے بیٹے کو ترکی اور پھر یورپ پہنچانے کے لیے کامران نامی اس ایجنٹ کو دس لاکھ روپے دیے تھے۔ وہ پیسے تو گئے لیکن ہمیں یہ علم تو ہونا چاہیے کہ ہمارا بیٹا کہاں ہے، کیسا ہے؟‘‘
امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے
03:00
This browser does not support the video element.
پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے کسی بھی مجرم کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا کتنی ہے، یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے معروف ماہر قانون اور پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر انور قاضی سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا، ’’ہیومن ٹریفکنگ یا انسانوں کی اسمگلنگ کے مرتکب مجرموں کو عمر قید تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ میری رائے میں تو ایسے مجرموں کے لیے عمر قید سے بھی بڑی سزا ہونا چاہیے، یعنی سزائے موت۔‘‘
انور قاضی نے مزید کہا کہ جب بھی پاکستان میں کسی مجرم کے لیے سزائے موت کی بات کی جاتی ہے، تو فوری طور پر سزائے موت کی مخالفت کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں ’شور مچانا‘ شروع کر دیتی ہیں۔ ان کے بقول، ’’پھر یہ بات پس پشت ڈال دی جاتی ہے کہ خطرناک زمینی اور سمندری راستوں سے غیر قانونی ترک وطن کی کوششوں کے دوران انہی اسمگلروں کی وجہ سے ہر سال بہت سے پاکستانی اس طرح مارے جاتے ہیں کہ عام طور پر ان کی تو لاشیں بھی واپس نہیں آتیں۔‘‘
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘