پاکستان کا قبائلی عمائدین کا پچاس رکنی وفد افغانستان میں
2 جون 2022واضح رہے کہ جنگ بندی کے مذکورہ معاہد ے کی میعاد رواں ہفتے ہی ختم ہوئی ہے۔ ماضی میں جنگ بندی معاہدے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں ثالثی افغان طالبان کرتے آئے ہیں۔ پاکستانی طالبان جنہیں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کہا جاتا ہے ایک علیحدہ گروپ ہونے کے باوجود افغان طالبان کے اتحادی ہیں۔ افغان طالبان نے گزشتہ برس اگست میں کابل حکومت پر قبضہ کر لیا تھا اور تب سے افغانستان کی سیاسی باگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب دو عشروں سے بھی زائد عرصے کے بعد امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی افواج افغانستان سے انخلاء کے حتمی مرحلے سے گزر رہی تھیں۔
پاکستان میں گزشتہ 14 برسوں کے دوران ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے ٹی ٹی پی کا ہاتھ رہا ہے اور اس گروپ نے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے، اپنے ان اراکین کی رہائی کے لیے جو حکومتی حراست میں ہیں اور پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں میں پیرا ملٹری فورسز کی موجودگی کو کم کروانے کی طویل عرصے تک جدوجہد کرتی رہی ہے۔
یہ پیشرفت تازہ ترین جنگ بندی کی میعاد ختم ہونے کے بعد ہو رہی ہے۔ پاکستانی حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے مابین اسی نوعیت کی جنگ بندی جس کی ثالثی بھی افغان طالبان کر رہے تھے، ایک ماہ جاری رہی تھی تاہم اب تک کسی بھی جنگ بندی نے ایک مستقل امن معاہدے کی راہ ہموار نہیں کی ہے۔
کابل میں بات چیت کے دوران دونوں فریقوں نے ماضی میں ہونے والے مذاکرات اور حالیہ جنگ بندی میں توسیع کے امکانات جیسے موضوعات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر فریقین میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی لچک دکھائی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اُسے کیا منظور ہے اور کیا نہیں ، تو ایک مستقل معاہدہ ممکن ہو سکتا ہے۔
پاکستانی طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں توسیع کا اعلان
ٹی ٹی پی ذرائع
ٹی ٹی پی کے دو ایسے سینیئر ارکان جو ان مذاکرات سے قریب ہیں، نے اس امر کی تصدیق کی کہ ایک پچاس رکنی ٹیم کابل پہنچی ہے اور انہوں نے ایسو سی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ جنگ بندی کے معاہدے کی توسیع دراصل حکومت پاکستان کی طرف سے'' مثبت رد عمل یا جواب ‘‘ سے منسلک ہے۔ انہوں نے تاہم اس کی مزید وضاحت یا تفصیلات بیان نہیں کیں۔
پاکستانی طالبان کی طرف سے اکثر خفیہ ٹھکانوں کے طور پر یا سرحد پار ے حملے کرنے کے لیے پڑوسی ملک افغانستان کے ناہموار سرحدی علاقوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں گزشتہ برس طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پاکستانی طالبان گروپ کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ افغان طالبان نے 1990 ء کے اواخر میں ملک پر حکومت کرتے ہوئے تب ہی سے سخت گیر موقف اختیار کرنے ، اسلامی قوانین کی تشریح اپنے انتہا پسند خیالات کے مطابق کرنے جیسے عوامل پر زور دیا اور انہیں نافذ کیا۔ اس سب کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقے پر مرتب ہوئے جو افغانستان کی سرحد سے ملحق ہیں۔ سب سے زیادہ سخت قوانین کا اطلاق اقلیتی برادریوں اور خواتین پر ہوا۔
ایک پاکستانی سکیورٹی تجزیہ کار محمود شاہ نے کہا ہے کہ اسلام آباد حکومت نے قبائلی عمائدین کو ثالث کے طور پر کابل بھیجا ہے کیونکہ پاکستان کے آئین کے تحت حکومت خود مذاکر ات نہیں کر سکتی۔ کم از کم براہ راست ایسے عناصر کیساتھ جو حکومت کے خلاق بغاوت کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکام تاہم بات چیت کو برقرار رکھنے کے لیے اور اس کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے جنگ بندی میں توسیع چاہتے ہیں۔
محمود شاہ کون ہیں؟
امریکہ میں نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد خیبر پختونخواہ میں فوج نے آپریشن شروع کیا تھا۔ تب محمود شاہ مقامی عہدیدار کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ فوج اور حکومت کے مابین رابطہ قائم کرنا وغیرہ ان کی ذمہ ذمہ داریوں میں شامل تھا اس کے سبب ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف آپریشنز کے بارے میں ان کے پاس اہم معلومات ہوتی تھیں۔ محمود شاہ نے کابل مذاکرات کو دشوار گزار قرار دیا۔ خبر رساں ایجنسی اے پی کو بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، '' فوج کے لیے ٹی ٹی پی کے ساتھ حکومتی سطح کی بات چیت فوج کی فتح کو شکست میں بدل دینے کے برابر ہے۔‘‘
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کی نگرانی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کر رہے ہیں۔ جنرل فیض پاکستانی خفیہ سروسز کے سابق چیف ہیں جو اب شمال مغرب میں ایک ٹاپ کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
امریکا نے طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکرات منسوخ کر دیے
کابل بات چیت
تحریک طالبان پاکستان کے دو اراکین کے مطابق کابل میں طالبان گروپ نے بُدھ کو پاکستانی بزرگ عمائدین سے 2018 ء کے اُس قانون کو ختم کرنے کے لیے کہا جس نے برطانوی نوآبادیاتی دور سے چلے آ رہے سابقہ قبائلی علاقوں کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔ اسلام آباد کی طرف سے اس طرح کے مطالبے کو قیول کرنے کا امکان نہیں ہے۔ اس قانون سے شورش زدہ علاقوں کے لاکھوں باشندوں کو خیر پختونخواہ کی عمل داری میں شامل ہونے کے بعد مساوی حقوق ملنے کا راستہ ہموار ہوا تھا۔
ٹی ٹی پی چاہتی ہے کہ پاکستانی فوج خیبرپختونخواہ سے نکل جائے نیز حکومتی حراست میں موجود اُس کے تمام جنگجوؤں کو رہا کر دیا جائے اور ان پر لگے قانونی خلاف ورزیوں کے تمام مقدمات منسوخ کر دیے جائیں۔ پاکستان نے جواب میں ٹی ٹی پی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرے اور افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ سے اپنا تمام تعلق اور رابطہ قطع کرے۔ یاد رہے کہ داعش یا اسلامک اسٹیٹ گروپ جنوبی ایشیا کی ان دونوں ریاستوں میں موجود ہے۔
ک م/ ب ج/ اے پی