پاکستانی سرحد سے متصل جنوب مشرقی ایرانی علاقے زاہدان اور ایران ہی کے دیگر شورش زدہ علاقوں میں پر تشدد مظاہروں کے بعد فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ اس بدامنی میں اب تک مبینہ طور پر ڈیڑھ سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
پاکستانی سرحد سے ملحقہ ایرانی علاقوں میں ان فسادات کے دوران بہت سی عوامی اور نجی املاک کو نقصان پہنچاتصویر: Abdul Ghani Kakar
اشتہار
معتبر ذرائع کے مطابق ان پرتشدد مظاہروں اور ان کے نتیجے میں شروع ہونے والی جھڑپوں میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 154 ہو چکی ہے۔ ہلاک شدگان میں زاہدان کے انٹیلیجنس سربراہ علی موسوی سمیت متعدد سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
ایرانی ساحلی شہر چابہار میں مقامی پولیس کے سربراہ کی طرف سے ایک کم سن لڑکی سے کی جانے والی حالیہ زیادتی کے مبینہ واقعے کے خلاف شروع ہونے والا عوامی احتجاج اب ایران کے کئی حصوں تک پھیل چکا ہے۔
ایرانی سرحدی علاقے میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم جیش العدل نے ایرانی سکیورٹی فورسز پر مزید حملوں کی دھمکی بھی دی ہے۔ زاہدان سے جاری کردہ ایک بیان میں اس تنظیم کے ایک ترجمان نے دعوٰی کیا کہ ایرانی فورسز سنی بلوچوں کی مبینہ نسل کشی میں براہ راست ملوث ہیں۔
آج جمعرات چھ اکتوبر کے روز سرحدی علاقے میر جاوہ میں ایک کارروائی کے دوران ایرانی فورسز نے مزید آٹھ مقامی افراد کو گرفتار کر لیا۔ ذرائع کے مطابق گرفتار شدگان نے گزشتہ روز حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں کے حق میں احتجاج کیا تھا۔
ایران کے زاہدان اور دیگر سرحدی علاقوں میں کئی روزہ بدامنی کے دوران اب تک مبینہ طور پر ڈیڑھ سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar
مقامی باشندوں کو گہری تشویش
پاک ایران سرحدی علاقے تفتان میں مقیم 45 سالہ شوکت شاہوزئی کے خاندان کے کئی افراد ایرانی علاقے سراوان میں مقیم ہیں۔ شوکت شاہوزئی کے مطابق ایرانی سرحدی علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر انہیں بھی گہری تشویش ہے۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے شوکت شاہوزئی نے کہا، ''میرے دو بھائی ہمارے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ اس وقت سراوان کے ایک قصبے میں رہائش پذیرہیں۔ ہمارا گزشتہ کئی دنوں سے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔ ان کے ایرانی موبائل نیٹ ورکس کے نمبروں پر بھی کالیں نہیں جا رہیں۔ ہمیں ان کی سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش ہے۔ سرحدی بندش کے باعث زیرو پوائنٹ پر آمد و رفت بھی بند ہے۔ حالیہ پرتشدد واقعات کے دوران وہاں جو افراد گرفتار ہوئے، ان میں ہمارے کئی رشتہ دار بھی شامل ہیں۔‘‘
شوکت شاہوزئی کے مطابق بلوچ قبائل کے پر امن افراد کو ایران میں تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ایرانی حکومت حقائق مسخ کر رہی ہے۔ حالیہ مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس احتجاج کے آغاز پر حالات اتنے خراب نہیں تھے۔ یہ صورت حال پرامن شہریوں پر فائرنگ کر کے عمداﹰ پیدا کی گئی ہے۔ ان پرتشدد واقعات میں مارے جانے والوں کی لاشیں بھی تدفین کے لیے ان کے لواحقین کے حوالے اس شرط پر کی جا رہی ہیں کہ وہ خاموش ہی رہیں گے۔‘‘
پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی گزرگاہ تصویر: Abdul Ghani Kakar
ایرانی حکام کا دعویٰ
دوسری طرف ایرانی سکیورٹی فورسز نے الزام لگایا ہے کہ اس سرحدی علاقے میں حالیہ پرتشدد واقعات میں تہران حکومت کی مخالف ایسی عسکریت پسند تنظیمیں ملوث ہیں، جو امن عامہ میں خرابی چاہتی ہیں۔
ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم نیوز کے مطابق ملکی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے اطالوی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ملک میں جاری حالیہ فسادات میں غیر ملکی عناصر کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ ایرانی حکومت ملک میں سیاسی آزادی، علاقائی سالمیت اور ریاستی خود مختاری کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
پاسداران انقلاب کے ارکان کا اغوا
گزشتہ چند برسوں کے دوران ایران کے زیادہ تر سرحدی علاقوں سے جیش العدل اور جیش النصر جیسی شدت پسند تنظیمیں پاسداران انقلاب نامی فورسز کے کئی سینیئر ارکان کو اغوا بھی کر چکی ہیں۔ بعد میں ان مغویوں میں سے متعدد کو قتل کر دیا گیا تھا جبکہ کئی دیگر کو ان متعدد عسکریت پسندوں کی رہائی کے بدلے رہا کر دیا گیا تھا، جو تب ایرانی فورسز کی حراست میں تھے۔
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔
تصویر: UGC/AFP
6 تصاویر1 | 6
اغوا کی ایسی ہی وارداتوں سے متعلق ایک ثبوت یہ ہے کہ 2019ء میں 21 مارچ کے روز پاکستانی علاقے چاغی میں پاکستانی سکیورٹی حکام نے کارروائی کر کے چار مغوی ایرانی اہلکاروں کو رہا کرا لیا تھا۔
پاک ایران سرحد پر تعینات ایک سینیئر پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایران میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر پاکستان نے بھی اپنی سرحد پر سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اس پاکستانی اہلکار نے کہا، ''پاک ایران سرحدی علاقے عرصہ دراز سے شورش کا شکار رہے ہیں۔ اس طویل مشترکہ سرحد پر مؤثر سکیورٹی صرف یکطرفہ اقدمات سے ممکن نہیں۔ پاکستان نے اپنے ریاستی علاقے میں سرحد پر سکیورٹی کے لیے ایک جامع طریقہ کار مرتب کیا ہے۔ اس کے علاوہ سرحد پر باڑ سے بھی صورت حال میں کافی بہتری محسوس کی جا رہی ہے۔‘‘
ترکی کا ایرانی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا منصوبہ
ترک حکومت ایران سے متصل مشرقی صوبے وان کی سرحد پر 63 کلومیٹر طویل دیوار تعمیر کر رہی ہے۔ اس کنکریٹ کی دیوار کا مقصد غیر قانونی مہاجرت اور اسمگلنگ کی روک تھام سمیت سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
کنکریٹ کی 63 کلومیٹر طویل دیوار
ترک حکومت ایران سے جڑی سرحد کے ساتھ مشرقی صوبے وان میں تریسٹھ کلومیٹر طویل کنکریٹ کی سرحدی دیوار تعمیر کر رہی ہے۔ اس دیوار کے تین کلومیٹر حصے کی تعمیر کا کام مکمل ہوچکا ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
تین میٹر اونچی بارڈر وال
اس دیوار کی اونچائی تین میٹر اور چوڑائی دو عشاریہ اسّی میٹر ہے۔ سات ٹن وزنی کنکریٹ کے بلاکس تیار کرنے کے بعد بھاری مشینوں کے ذریعے نصب کیے جارہے ہیں۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
نگرانی کے لیے ’اسمارٹ واچ ٹاورز‘
ترک حکومت کے مطابق صوبہ وان کے سرحدی علاقوں میں نگہداشت کے لیے اب تک 76 ٹاورز نصب کیے گئے ہیں اور گہری کھائی بھی کھودی گئی ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
بارڈر سکیورٹی میں اضافہ
انقرہ حکومت کے مطابق کنکریٹ کی دیوار کی تعمیر کا مقصد دہشت گردی، سامان کی اسمگلنگ اور غیر قانونی مہاجرت کے خلاف سکیورٹی سخت کرنا ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘
اس دیوار کی تعمیر کا ایک مقصد دہشت گردی کے خلاف لڑائی ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ایک ہزار سے زیادہ کارکن ایران کی سرحد پر کیمپوں میں سرگرم ہیں۔ اس دیوار کے ذریعے اس گروپ کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
غیر قانونی مہاجرت کی روک تھام
یورپ پہنچنے کے لیے ہزاروں تارکین وطن ایران کے راستے سے غیر قانونی طریقے سے ترکی کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ اس دیوار کی تعمیر کا مقصد افغانستان، پاکستان اور ایران سے ہونے والی انسانی اسمگلنگ کو روکنا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کم از کم پانچ سو افغان مہاجرین ترکی میں داخل ہوئے ہیں۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
منشیات اور سامان کی اسمگلنگ
اس سرحدی دیوار کی تعمیر کے ذریعے ترک حکومت منشیات اور سامان کی اسمگلنگ کو بھی روکنا چاہتی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے عہدیدار نے ترکی کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس دیوار کی تعمیر سے اسمگلنگ کو روکا جاسکے گا۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
سرحدی علاقے میں جنگلی حیات
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ سرحدی دیوار کی تعمیر سے علاقے میں جنگلی حیات کی نقل و حرکت محدود ہوجائے گی۔ اس وجہ سے ماحولیاتی نظام پر طویل مدتی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
محفوظ سرحدیں
ترک حکام امید کر رہے ہیں کہ اس دیوار کی تکمیل کے ساتھ ہی ترک ایران سرحد کو مزید محفوظ بنانا ہے۔ اُن کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد افغان مہاجرین بڑی تعداد میں ایران کے راستے ترکی میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
ترکی اور سرحدی دیواریں
یو این ایچ سی آر کے مطابق ترکی میں دنیا بھر میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد موجود ہے۔ اس وقت ملک میں تقریبا تین عشاریہ چھ ملین رجسٹرڈ شامی پناہ گزین اور قریب تین لاکھ بیس ہزار دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد موجود ہیں۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
10 تصاویر1 | 10
اس پاکستانی اہلکار نے مزید کہا، ''پاک ایران سرحد کے دونوں اطراف جو قبائل آباد ہیں، ان کے آپس میں دیرینہ خاندانی رشتے ہیں۔ اس وقت ایرانی حدود سے سرحد پر امیگریشن معاملات عارضی طور پر معطل ہیں۔ اس طرح سرحدی بندش سے دوطرفہ تجارت بھی متاثرہوئی ہے۔ تاہم ایران میں موجود جو پاکستانی واپس آنا چاہتے ہیں، انہیں پاکستان واپسی کی اجازت دی جا رہی ہے۔‘‘
علاقائی سیاسی امور کے تجزیہ کار قاری عبدالرحمان نورزئی کہتے ہیں کہ ایران میں جاری پرتشدد واقعات سے خطے میں سلامتی کی مجموعی صورت حال پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''گزشتہ کئی سالوں سے ایران کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ حالیہ واقعات کو وہاں کے زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایران میں داخلی طور پر اگر ریاستی اہلکاروں اور ملکی عوام کے مابین دوریاں پیدا ہوئیں، تو حالات زیادہ تشویش ناک ہو سکتے ہیں۔‘‘
افغانستان سے متصل سرحدوں پر باڑ، ٹی ٹی پی کے لیے مسئلہ؟