بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پاکستان سے متعلق بھارت کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کے لیے کرکٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وہ ''روایتی سائیڈ آن‘‘ سے ’’اوپن چیسٹڈ پوزیشن‘‘ کی طرف بڑھ گیا ہے۔
اشتہار
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ان خیالات کا اظہار بھارت کے سابق کرکٹر موہندر امرناتھ کی یادداشت 'فیئرلیس' کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جے شنکر نے پاکستان سے متعلق بھارت کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کے لیے بھارتی کرکٹ ٹیم کے 1982/83 کے دورہ پاکستان کے بارے میں موہندر امرناتھ کے خیالات کا حوالہ دیا۔
جے شنکر نے کہا، ''آپ نے کہا کہ آپ نے روایتی سائیڈ آن پوزیشن سے بہتر طور پر کھیلا اور اب آپ اوپن چیسٹڈ پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔ مجھے اس وقت پاکستان کی پالیسی کے لیے اس سے بہتر مماثلت نہیں مل سکتی۔‘‘
کرکٹ میں، اوپن چیسٹیڈ پوزیشن ایک طرح کا باؤلنگ ایکشن ہے، جس میں گیند باز کے کندھے بلے باز کے بالکل سامنے ہوتے ہیں۔ اسٹیو ہارمیسن، اینڈریو فلنٹوف اور مکھایا نٹینی جیسے کچھ گیند بازوں کا باؤلنگ ایکشن اوپن چیسٹڈ رہا ہے۔
1982/83 میں پاکستان کے دورے میں بھارت کو چھ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں پاکستان کے ہاتھوں 3-0 سے شکست ہوئی تھی۔ امرناتھ کے علاوہ، بھارتی ٹیم میں کپل دیو اور سنیل گواسکر جیسے کرکٹ کے لیجنڈز شامل تھے۔
جے شنکر نے پاکستان پالیسی پر کیا کہا؟
بھارتی وزیر خارجہ نے کرکٹ اور بھارت کی خارجہ پالیسی کے ارتقاء کے درمیان دلچسپ مماثلتیں بھی بتائیں اور 1983 میں ٹیم کی ورلڈ کپ جیت کو ''انفلیکشن پوائنٹ‘‘ یعنی اہم موڑ قرار دیا۔
جے شنکر نے کہا، ''یہ صرف انفلیکشن پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ انفلیکشن پوائنٹ کا مین آف دی میچ تھا۔ پاکستان نے اسے ایک پوائنٹ پر جیتا تھا اور ایک پوائنٹ پر سری لنکا نے اسے جیتا تھا۔ لیکن اتنا بڑا انفلیکشن پوائنٹ کرکٹ کی تاریخ میں کہیں اور نہیں تھا۔ کیونکہ، اگر آپ 1983 کے بعد عالمی کرکٹ میں بھارت کے کردار کو دیکھیں، تو یہ بنیادی طور پر بدل گیا۔‘‘
انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ جب دنیا شدید مسابقتی ہے، تو عزت کمانی پڑتی ہے۔ اس پہلو کی وضاحت بھی جے شنکر نے کرکٹ کے ایک واقعہ کا استعمال کرتے ہوئے کی۔ انہوں نے کہا '' کلائیو لائیڈ کو ایک فیلڈنگ کپتان کہا جاتا ہے۔ ان کی کپتانی میں ویسٹ انڈیز کے بالرز نے 1976 میں آپ میں سے کسی کو نہیں بخشا۔ انہوں نے 1983 میں اس پچ کو غیر فٹ قرار دینے کے سلسلے میں کافی فراخدلی دکھائی۔ یہ دراصل کئی طریقوں سے عزت کمانے کی ایک مثال ہے۔‘‘
خارجہ پالیسی شطرنج کے بجائے کرکٹ جیسی
جے شنکر، جو سفارتی پچ پر اپنی غیر معمولی نفاست اور کارکردگی کے لیے جانے جاتے ہیں،نے مزید کہا کہ خارجہ پالیسی شطرنج کے بجائے کرکٹ جیسی ہے۔
’’یہ کرکٹ کی طرح ہے کیونکہ، پہلی چیز یہ کی اس میں بہت سے کھلاڑی ہوتے ہیں۔ دوسری یہ کہ کھیل کے حالات مختلف ہوتے رہتے ہیں۔ اندرون ملک کھیلنا اور بیرون ملک کھیلنا بہت مختلف ہے۔ بعض اوقات آپ امپائر کی متلون مزاجی کا شکار بن جاتے ہیں۔‘‘
جے شنکر نے سفارت کاری اور کرکٹ میں مزید موازنہ کرتے ہوئے کہا، ''کرکٹ کے کئی فارمیٹ ہیں۔ لیکن میچ کا دن بہت کچھ نفسیاتی بھی ہوتا ہے۔ آپ یہ جاننے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں کہ مخالف ٹیم کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، وہ کیا منصوبہ بنارہی ہے۔ جب بھی آپ میدان پر مقابلے کے لیے جاتے ہیں تو، یہ دراصل مسابقتی جذبہ ہے جو آپ کو یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ، مجھے اسے جیتنا ہے۔‘‘
بین الاقوامی کرکٹ کے متنازع ترین واقعات
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا حالیہ بال ٹیمپرنگ اسکینڈل ہو یا ’باڈی لائن‘ اور ’انڈر آرم باؤلنگ‘ یا پھر میچ فکسنگ، بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ کئی تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ دیکھیے عالمی کرکٹ کے چند متنازع واقعات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: REUTERS
2018: آسٹریلوی ٹیم اور ’بال ٹیمپرنگ اسکینڈل‘
جنوبی افریقہ کے خلاف ’بال ٹیمپرنگ‘ اسکینڈل کے نتیجے میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے کپتان اسٹیون اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر پرایک سال کی پابندی عائد کردی ہے۔ کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کھلاڑی کیمرون بن کروفٹ کو کرکٹ گراؤنڈ میں نصب کیمروں نے گیند پر ٹیپ رگڑتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیون اسمتھ اور بن کروفٹ نے ’بال ٹیمپرنگ‘ کی کوشش کا اعتراف کرتے ہوئے شائقین کرکٹ سے معافی طلب کی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Krog
2010: اسپاٹ فکسنگ، پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ’نو بال‘
سن 2010 میں لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر سلمان بٹ کی کپتانی میں پاکستانی فاسٹ باؤلر محمد عامر اور محمد آصف نے جان بوجھ کر ’نوبال‘ کروائے تھے۔ بعد میں تینوں کھلاڑیوں نے اس جرم کا اعتراف کیا کہ سٹے بازوں کے کہنے پر یہ کام کیا گیا تھا۔ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف برطانیہ کی جیل میں سزا کاٹنے کے ساتھ پانچ برس پابندی ختم کرنے کے بعد اب دوبارہ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
تصویر: AP
2006: ’بال ٹیمپرنگ کا الزام‘ انضمام الحق کا میچ جاری رکھنے سے انکار
سن 2006 میں پاکستان کے دورہ برطانیہ کے دوران اوول ٹیسٹ میچ میں امپائرز کی جانب سے پاکستانی ٹیم پر ’بال ٹیمپرنگ‘ کا الزام لگانے کے بعد مخالف ٹیم کو پانچ اعزازی رنز دینے کا اعلان کردیا گیا۔ تاہم پاکستانی کپتان انضمام الحق نے بطور احتجاج ٹیم میدان میں واپس لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہارپر نے انگلینڈ کی ٹیم کو فاتح قرار دے دیا۔
تصویر: Getty Images
2000: جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے سٹے بازی میں ملوث
سن 2000 میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے میچ میں سٹے بازی کے سبب جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔ دو برس بعد بتیس سالہ ہنسی کرونیے ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ہنسی کرونیے نے آغاز میں سٹے بازی کا الزام رد کردیا تھا۔ تاہم تفتیش کے دوران ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کپتان کی جانب سے میچ ہارنے کے عوض بھاری رقم کی پشکش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Zieminski
2000: میچ فکسنگ: سلیم ملک پر تاحیات پابندی
سن 2000 ہی میں پاکستان کے سابق کپتان سلیم ملک پر بھی میچ فکسنگ کے الزام کے نتیجے میں کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کی گئی۔ جسٹس قیوم کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق سلیم ملک نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ پاکستانی وکٹ کیپر راشد لطیف نے سن 1995 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایک میچ کے دوران سلیم ملک کے ’میچ فکسنگ‘ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
1981: چیپل برادران اور ’انڈر آرم‘ گیندبازی
آسٹریلوی گیند باز ٹریور چیپل کی ’انڈر آرم باؤلنگ‘ کو عالمی کرکٹ کی تاریخ میں ’سب سے بڑا کھیل کی روح کے خلاف اقدام‘ کہا جاتا ہے۔ سن 1981 میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف آخری گیند ’انڈر آرم‘ دیکھ کر تماشائی بھی دنگ رہ گئے۔ آسٹریلوی ٹیم نے اس میچ میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ’فیئر پلے‘ کا مرتبہ برقرار نہ رکھ پائی۔
تصویر: Getty Images/A. Murrell
1932: جب ’باڈی لائن باؤلنگ‘ ’سفارتی تنازعے‘ کا سبب بنی
سن 1932 میں برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ آسٹریلیا برطانوی کپتان ڈگلس جارڈین کی ’باڈی لائن باؤلنگ‘ منصوبے کی وجہ سے مشہور ہے۔ برطانوی گیند باز مسلسل آسٹریلوی بلے بازوں کے جسم کی سمت میں ’شارٹ پچ‘ گیند پھینک رہے تھے۔ برطانوی فاسٹ باؤلر ہیرالڈ لارووڈ کے مطابق یہ منصوبہ سر ڈان بریڈمین کی عمدہ بلے بازی سے بچنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم یہ پلان دونوں ممالک کے درمیان ایک سفارتی تنازع کا سبب بن گیا۔