پاکستان سے متعلق ٹرمپ کی پالیسی: ’زیادہ ڈرون حملے زیر غور‘
مقبول ملک روئٹرز
20 جون 2017
امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ افغانستان کی جنگ کی وجہ سے بظاہر پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں زیادہ سختی پر آمادہ نظر آ رہی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق پاکستان میں زیادہ ڈرون حملے کرنے اور امداد میں کمی پر بھی غور کیا گیا ہے۔
اشتہار
واشنگٹن سے منگل بیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے بتایا کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں ان عسکریت پسندوں کے حملوں کے وجہ سے، جو پاکستان میں اپنے مبینہ ٹھکانوں سے ایسی دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے یا کرواتے ہیں، ٹرمپ انتظامیہ اب اسلام آباد سے متعلق اپنی اب تک کی حکمت عملی میں زیادہ سختی لانے پر آمادہ نظر آنے لگی ہے۔
روئٹرز کے مطابق اعلیٰ امریکی حکام نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ امریکا افغانستان میں موجودہ حالات میں بہتری لانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے تحت اس کی خواہش ہے کہ پاکستان بھی افغانستان کی صورت حال میں بہتری کے لیے اپنا وہ کردار ادا کرے، جو وہ ادا کر سکتا ہے۔
اس سلسلے میں امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے اب تک جن امکانات پر غور کیا گیا ہے، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ پاکستانی سرزمین پر کیے جانے والے امریکی ڈرون حملوں میں اضافہ کر دیا جائے، پاکستان کو دی جانے والی امداد میں یا تو کمی کر دی جائے یا اسے روک دیا جائے اور اگر ضروری ہو تو نیٹو کے غیر رکن ملک لیکن امریکا کے ایک بڑے اتحادی ملک کے طور پر پاکستان کی حیثیت بھی کم کر دی جائے۔
روئٹرز کے مطابق چند اعلیٰ امریکی حکام اس بارے میں قدرے کم امیدی کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ یہ نئے ممکنہ اقدامات اس کامیابی کو یقینی بنا سکیں گے، جو ٹرمپ انتظامیہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اس سلسلے میں امریکی انتظامیہ کے اندر ہی واشنگٹن کی پاکستان سے متعلق پالیسی میں اس ممکنہ تبدیلی کے ناقدین کا کہنا یہ ہے کہ امریکا کی سالہا سال سے کی جانے والی وہ کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں، جو وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کر رہا ہے کہ پاکستان افغان عسکریت پسند گروپوں کی (مبینہ) حمایت بند کر دے۔
ایسے میں پاکستان کے روایتی حریف اور بڑے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ امریکا کے مسلسل مضبوط ہوتے ہوئے تعلقات بھی اس ہدف کے حصول کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوں گے کہ واشنگٹن اسلام آباد کو اس کی اب تک کی علاقائی اور سکیورٹی سیاست میں تبدیلی پر مجبور کر سکے۔
ایسے ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ امریکا کے زیادہ گہرے تعاون کے حامی ہیں، نہ کہ دونوں ملکوں کے مابین موجودہ تعلقات کو مزید خراب کر دیا جائے یا ہونے دیا جائے۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔
تصویر: AP
10 تصاویر1 | 10
یہ ساری بحث اس تناظر میں کی جا رہی ہے کہ امریکا کے لیے افغانستان کی جنگ امریکی تاریخ کی بیرون ملک لڑی جانے والی طویل ترین جنگ بن چکی ہے۔ اسی لیے جنوری میں اقتدار میں آنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ وہ افغانستان میں سولہ سال سے جاری اس جنگ کے خاتمے کے لیے ممکنہ طور پر اس ملک اور خطے سے متعلق اپنی حکمت عملی میں تبدیلیاں لائیں گے۔
امریکی ذرائع کے بقول پاکستان سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ اپنے جن ممکنہ اقدامات پر غور کر رہی ہے، وہ واضح طور پر اسی وقت سامنے آ سکیں گے، جب واشنگٹن جنگ زدہ افغانستان سے متعلق اپنی نئی پالیسی کو حتمی شکل دے دے گا۔
روئٹرز کے مطابق واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون نے اس بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی کو حتمی شکل دیے جانے سے قبل کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا جبکہ واشنگٹن ہی میں پاکستانی سفارت خانے نے بھی اس موضوع پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔