پاکستان سے ملک بدر ہونے والا ترک استاد ترکی میں گرفتار
صائمہ حیدر
16 اکتوبر 2017
پاکستان سے ڈی پورٹ کیے جانے والے ایک ترک ماہر تعلیم کو اس کی بیوی سمیت ترکی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ ترک ٹیچر لاہور میں قائم کئی پاک ترک اسکولوں کا سربراہ تھا۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو مسعود کچماز کے اسکول کے ایک ساتھی نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان سے ڈرامائی طور پر غائب ہونے کے بعد اب کچماز اور اس کی بیوی کو ترکی میں حکام نے گرفتار کر لیا ہے جبکہ اُن کے بچے دادی دادا کے پاس ہیں۔
ڈی پی اے نے اس معاملے پر پاکستانی حکومت اور پاکستان کی وزارت داخلہ کا موقف بذریعہ ٹیلیفون اور ای میل جاننے کی کوشش کی لیکن وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
مسعود کچماز لاہور میں قائم پاک ترک اسکولوں کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ پاک ترک اسکولوں کے نٹ ورک پر مبینہ طور پر امریکا میں ایک جلاوطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی تنظیم کے لیے کام کرنے کا الزام ہے۔ ترک حکومت فتح اللہ گولن کی شدید مخالف ہے۔
مسعود کچماز پر بھی جولائی سن دو ہزار سولہ میں ترک حکومت کے خلاف ہونے والی ناکام بغاوت میں شامل ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے تاہم اس ترک ماہر تعلیم نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔ پاک ترک اسکولوں نے بھی گولن کے ساتھ کسی قسم کی وابستگی سے انکار کیا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ ستمبر کے آخر میں پاکستانی میں انسانی حقوق کے کمیشن نے کہا تھا کہ اس ترک خاندان کو ’پاکستانی اداروں کے اہلکاروں نے لاہور سے اغوا‘ کیا ہے۔
پاکستان میں انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبون نے اپنی اتوار پندرہ اکتوبر کی اشاعت میں رپورٹ کیا تھا کہ اس ترک خاندان کو چودہ اکتوبر کو ترک ایئر لائن سے ترکی بھیجا گیا تھا۔
عینی گواہوں کے مطابق بدھ ستائیس ستمبر کی صبح اُن کو اہلیہ اور دو بیٹیوں سمیت لاہور میں اُن کی رہائش گاہ سے ایک گاڑی میں لے جایا گیا تھا۔ اس حوالے سے ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’’ یہ پولیس کی کارروائی نہیں تھی بلکہ اس واقعے کے پیچھے کسی اور ’ایجنسی‘ کا ہاتھ ہے۔‘‘
خیال رہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے پاک ترک اسکولوں اور وہاں تعلیم دینے والے زیادہ تر ترک اساتذہ پر موجودہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن بھی پاکستان کے اپنے کئی دوروں کے دوران شدید تنقید کر چکے ہیں۔
ترکی میں مظاہرے
تصویر: Reuters
ترکی میں گزشتہ ہفتے سے جاری ان مظاہروں کے دوران کم ازکم چار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ چار ہزار سے زائد زخمی ہیں۔
تصویر: Getty Images
جس پارک سے یہ مظاہرے شروع ہوئے تھے، وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد خیمہ زن ہو چکی ہے۔ کچھ مظاہرین یوگا کرتے ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ترک حکومت کی جانب سے معذرت کو مسترد کرتے ہوئے بدھ کی صبح ہزاروں مظاہرین ترکی کے مختلف علاقوں میں حکومت مخالف مظاہروں کے لیے نکلے ہیں۔ مبصرین ان مظاہروں کو ایردوآن حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
ترکی میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جمعرات کے دن بھی جاری ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ پولیس کریک ڈاؤن پر وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن معافی مانگیں اور ایسے افسران کو برطرف کر یں، جنہوں نے مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائی کے احکامات جاری کیے۔
تصویر: Adem Altan/AFP/Getty Images
استنبول سے شروع ہونے والا احتجاج کا یہ سلسلہ ترکی کے درجنوں شہروں تک پھیل چکا ہے۔ استنبول کے ایک پارک کی تعمیر نو پر شروع ہونے والے یہ مظاہرے اسلام پسند وزیر اعظم ایردوآن کی مبینہ مطلق العنان پالیسیوں کے خلاف غیر معمولی رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
بدھ کے دن ٹریڈ یونین کی ایک فیڈریشن نے انقرہ میں ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ہزاروں افراد کی نمائندہ اس تنظیم کے کارکنوں نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور ایردوآن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ اسی طرح دیگر کئی شہروں میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Reuters
ترک شہر ازمیر میں پولیس نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر مظاہروں کو ہوا دینے اور پروپیگنڈے کے الزام میں 9 مزید افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ ابھی تک ٹوئٹر پر ایسے ہی پیغامات لکھنے پر ترکی بھر میں مجموعی طور پر 25 افراد حراست میں لیے گئے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
استنبول کے تقسیم چوک پر جمع ہزاروں مظاہرین وزیراعظم ایردوآن کی نافرمانی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ وزیراعظم ایردوآن نے اس سے قبل مظاہرین کو ’شدت پسند‘ اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت توڑ پھوڑ مچانے والے’وحشی‘ قرار دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گزشتہ پانچ روز تک سخت تناؤ کے ماحول کے مقابلے میں بدھ کے روز مظاہروں میں جشن کا سا سماں دکھائی دیا، مظاہرین مقامی آلات موسیقی اور تالیا بجاتے ہوئے حکومت مخالف گیت گا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کا کہنا تھا کہ ان مظاہروں کے باوجود تقسیم چوک کی تعمیر نو کا کام جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان مظاہرین کا پارک میں تعمیر نو کے کام سے کوئی تعلق نہیں اور یہ خالصتاﹰ حکومت کی مخالفت میں جمع ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
ترکی کے شہر استنبول سمیت دارالحکومت انقرہ، ازمیر اور انطولیہ کے دیگر شہروں کے مراکز میں ترک پولیس کی طرف سے مظاہرین کے ہجوم کے خلاف کی جانے والی کارروائی اور بہیمانہ سلوک کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے ناقدین حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
پولیس نے اپنے کریک ڈاؤن کے دوران مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل برسائے ہیں اور تیز دھار پانی کا استعمال بھی کیا ہے۔