پاکستان سے چار لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کی ریکارڈ واپسی
صائمہ حیدر
2 دسمبر 2016
اقوام متحدہ نے اہنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں برس پاکستان سے واپس افغانستان جانے والے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 380،000 ہے، جو سن دو ہزار سات کے بعد سے ایک سال میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کی جانب سے آج بروز جمعہ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ سال رواں کے دوران اب تک 380,000 رجسٹرڈ افغان مہاجرين اپنے وطن لوٹ چکے ہيں۔ واپس لوٹنے والے افغان شہريوں کی امداد کے ليے صرف گزشتہ تين ماہ کے دوران 135 ملين امريکی ڈالر ادا کيے جا چکے ہيں۔
رضاکارانہ طور پر اپنے ملک لوٹنے والی يہ سن 2007 کے بعد ايک سال ميں سب سے بڑی تعداد ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا خوف اور رضا کارانہ طور پر اپنے وطن واپس جانے والوں کے لیے اقوامِ متحدہ کی جانب سے دی جانے والی رقم میں دوگنا اضافے کے باعث افغانستان لوٹنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
یو این ایچ سی آر کی ترجمان دنیا اسلم خان نے خبر رساں اداے اے ایف پی کو بتایا، ’’اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین اپنے وطن واپس جائیں گے، اس کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔ رواں برس صرف اکتوبر میں ہی لوٹنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ اڑتالیس ہزار کے قریب ہے، جو اگست سن 2005 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔‘‘
خان نے مزید بتایا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب عالمی ادارہ برائے مہاجرین نے روزانہ اوسطاً 5،500 پناہ گزینوں کے معاملات نمٹائے تھے۔ اندازوں کے مطابق مزید پانچ لاکھ غیر اندراج شدہ مہاجرین بھی امسال افغانستان واپس گئے ہیں تاہم حکام کی جانب سے اِن اعداد وشمار کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
افغانستان واپس لوٹنے والے مہاجرین کو کئی عشروں سے جنگ سے تباہ حال افغانستان میں ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا کرنا ہو گا، جہاں اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2016 میں طالبان کے ساتھ ہونے والی جنگ کے باعث پانچ لاکھ کے قریب افراد اندرونِ ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ افغانستان میں حکام پہلے ہی انسانی بحران کے حوالے سے خبردار کر چکے ہیں۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ جنگ کے باعث ہزاروں افغان باشندے ملک کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی نے جنگ زدہ افغانستان کو مشکلات سے دو چار کر دیا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر مہاجرین کی میزبانی کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔
سن دو ہزار نو سے اسلام آباد حکومت بار بار افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے ڈیڈ لائن مقرر کرتی رہی ہے تاہم اب ایسے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے لیےمارچ سن دو ہزار سترہ کی تاریخ حتمی ثابت ہو گی۔
مہاجر کیمپوں میں رمضان
دنیا بھر میں مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کا آغاز ہو چکا ہے۔ یونان کے ایک مرکز میں پناہ لیے ہوئے آٹھ سو مہاجرین کے پاس اس مہینے کے استقبال کے لیے زیادہ چیزیں نہیں تھیں۔ ان افراد کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہے۔
تصویر: DW/J. Hilton/Pulitzer Center
صوم و صلواۃ کا مہینہ
افغانستان سے تعلق رکھنے والی فریدہ افطار سے قبل اس ننھے سے قرآن کی تلاوت کر رہی ہے۔ اکثر مسلمان روزہ کھولنے سے قبل مختلف قسم کی عبادات میں مصروف رہتے ہیں۔ فریدہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ایتھنز کے قریب لگائے گئے اس مہاجر کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/J. Hilton/Pulitzer Center
افطار کی تیاریاں
ایکو 100 نامی ایک فلاحی ادارہ خصوصی طور پر ماہ رمضان کے دوران روزداروں کی مدد کر رہا ہے۔ اس ادارے کی اسٹیفینی پوپ سلیمان جنید نامی ایک پناہ گزین کے ہمراہ تھیلوں میں کھجوریں ڈال رہی ہے۔ سلیمان کا تعلق دمشق سے ہے۔ روایتی طور پر مسلمان کھجور اور پانی کے ساتھ افطار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hilton/Pulitzer Center
امدادی سامان کی اچانک ترسیل
شام سے تعلق رکھنے والے دو بچے متحدہ عرب امارات کی جانب سے رمضان کے موقع پر خصوصی طور پر دیا جانے والا امدادی سامان گاڑی سے اتار رہے ہیں۔ رٹسونا مہاجر کیمپ کے لیے ایک سو کلو کجھوریں بھیجی گئی ہیں۔
تصویر: DW/J. Hilton/Pulitzer Center
اشیاء کی تقسیم
کھانے کے ایک گودام میں رضاکار جمع ہیں اور انہیں رمضان کے دوران شوق سے نوش کی جانے والی اشیاء کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ ان میں انار کا شربت، نمکیں لسی اور کھجوریں شامل ہیں۔ یہ اشیاء عام طور پر تقسیم کیے جانے والے کھانے کے ساتھ اضافی طور پر دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/J. Hilton/Pulitzer Center
آسمان تلے باورچی خانہ
مہاجرین کے اکثر مراکز میں باقاعدہ طور پر کوئی باورچی خانہ موجود نہیں ہے۔ شامی شہری نجہ حورو ایک دیگچی میں چاول پکا رہی ہیں۔ نجہ حورو اپنے خاندان کے نو افراد کے ساتھ اس کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔
تصویر: DW/J. Hilton/Pulitzer Center
بچوں کے ساتھ
نجہ کے داماد حسن رسول بھی اسی کیمپ میں موجود ہیں۔ ان کے چار بیٹے ہیں۔ مرکز کے ایک قریبی خیمے سے موسیقی کی دھن پر وہ اپنے بیٹے رسول کے ساتھ رقص کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hilton/Pulitzer Center
افطار
نجہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ افطار کے لیے دستر خوان پر بیٹھی ہیں۔ یہ لوگ چاول، سوپ اور سلاد کے ساتھ روزہ کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس دستر خوان پر موجود بینگن یونانی حکومت کی جانب سے مہیا کیے گئے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hilton/Pulitzer Center
عبادت کا وقت
’رٹسونا‘ کا یہ مہاجر کیمپ ایتھنر کے قریب واقع ہے۔ یہاں پر ایک تباہ شدہ عمارت بھی ہے، جسے مہاجرین نے عارضی طور پر ایک مسجد میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہاں لوگ قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور دیگرعبادات بھی ادا کی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/J. Hilton/Pulitzer Center
دن کا اختتام
افطار کے فوری بعد مغرب کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ رٹسونا کے کیمپ میں ایک شخص اپنے خیمے کے باہر نماز پڑھ رہا ہے۔