پاکستان سے گرفتار مشتبہ جہادی کے خلاف پيرس ميں مقدمہ
عاصم سلیم
13 فروری 2018
پيرس ميں ايک مشتبہ دہشت گرد کے خلاف مقدمے کا آغاز ہو گيا ہے، جس پر شبہ ہے کہ وہ القاعدہ کا ايک اعلیٰ اہلکار ہے اور اُسے يورپ ميں حملے کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اِس ملزم کو سن 2012 ميں پاکستان سے گرفتار کيا گيا تھا۔
اشتہار
الجزائر اور فرانس کی دوہری شہريت کے حامل نامِن ايم نامی اس ملزم کے خلاف مقدمے کا آغاز پير بارہ فروری کے روز ہوا۔ عدالتی سماعت ميں اس نے اپنے خلاف عائد الزامات کی ترديد کی اور اپنا موقف بيان کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان اپنے اور اپنے اہل خانہ کے ليے مکان ڈھونڈنے گيا تھا۔
فرانسيسی انٹيليجنس کو شبہ ہے کہ نامِن ايم نامی يہ شخص کسی وقت القاعدہ کے ’ہيمبرگ سيل‘ کا رکن تھا، جس کے ارکان نے امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی ميں بھی مدد فراہم کی تھی۔ ملزم پر شبہ ہے کہ وہ سب سے پہلی مرتبہ سن 1990 کی دہائی کے اوائل ميں افغانستان گيا تھا، جہاں اس جہادی گروہ کی جانب سے اسے تربيت فراہم کی گئی۔ بعد ازاں اُس وقت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے قريبی ساتھی يونس الموریطانی نے ملزم نامِن ايم کو اس سيل کے رکن کے طور پر مقرر کيا تھا۔ نامِن ايم نے اس کے بعد پھر مارچ 2009ء ميں ہيمبرگ سے ايک گروپ کے ساتھ افغانستان کا رخ کيا تھا اور اس کا يہی دورہ، فرانس ميں اُس کے خلاف قانونی کارروائی کا سبب بنا۔
سينتاليس سالہ نامِن ايم کا فرانسيسی دارالحکومت پيرس کی ايک عدالت ميں پير کے روز کہنا تھا کہ اس کے پاس القاعدہ کا رکن بننے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا کيوں کہ اس عمل سے وہ واپس جرمنی آ سکتا تھا۔ اس کے بقول اسے يہ معلوم نہ تھا کہ کتنے طويل عرصے تک اسے القاعدہ کا رکن بن کر رہنا پڑے گا۔
اس کے برعکس استغاثہ کا الزام ہے کہ ملزم باقاعدگی سے جرمن شہر ہيمبرگ کی القدس مسجد جاتا رہا تھا، جہاں امريکا ميں گيارہ ستمبر کے حملوں ميں ملوث کليدی مجرمان جايا کرتے تھے۔ علاوہ ازيں سن 2001 کے حملوں سے کچھ ہی ماہ پہلے ملزم نے مسجد القدس کے سلفی رہنما محمد فضافی کی بيٹی سے شادی بھی کر لی تھی۔ يہ امر اہم ہے کہ فضاضی کو دار البیضاء یا کاسا بلانکا ميں سن 2003 ميں ہونے والے خود کش حملوں کے تناظر ميں بعد ازاں عمر قيد کی سزا سنائی گئی تھی۔ فرانسيسی انٹيليجنس کے ايک افسر نے عدالت کو بتايا کہ فضاضی کی بيٹی سے شادی کے سبب نامِن ايم کے ليے القاعدہ کی اعلیٰ رکنيت کے دروازے کُھلے۔ اس افسر کا مزيد کہنا تھا، ’’وہ بظاہر کچھ چيزوں کا ذمہ دار تھا تاہم تفتيش سے فی الحال يہ ثابت نہيں ہو سکا ہے کہ وہ کيا معاملات تھے۔‘‘
يہ امر اہم ہے کہ ملزم کو تين ديگر فرانسيسی جہاديوں کے ہمراہ پاکستان سے سن 2012 ميں حراست ميں ليا گيا تھا۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔