پاکستان: شمالی وزیرستان میں خود کش بم حملہ، چار فوجی ہلاک
9 اگست 2022
پاکستان کے افغان سرحد کے قریبی علاقے شمالی وزیرستان میں ایک فوجی قافلے پر خود کش بم حملے میں چار فوجی مارے گئے۔ پاکستانی فوج کے منگل کے روز جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ بم حملہ میر علی کے مقام پر کیا گیا۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے نو اگست منگل کے روز موصولہ رپورٹوں میں کہا گیا کہ ملکی فوج نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حملہ کب کیا گیا۔ بیان میں صرف اتنا کہا گیا کہ ماضی میں پاکستانی قبائلی علاقے کہلانے والے شمالی مغربی علاقوں میں سے شمالی وزیرستان میں ایک خود کش حملہ آور کی طرف سے ایک فوجی قافلے کو نشانہ بنانے کے واقعے میں چار فوجی مارے گئے۔
مقامی پولیس اور ملکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس حملے میں ایک عسکریت پسند نے اپنی آٹو موبائل پیر آٹھ اگست کو رات گئے وہاں سے گزرنے والے ایک فوجی قافلے میں شامل گاڑیوں سے ٹکرا دی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس سرحدی علاقے میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ایسے خونریز حملوں میں ایک بار پھر کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ماضی میں شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی ایجنسیاں پاکستانی طالبان، دہشت گرد تنظیم داعش کے شدت پسندوں اور دیگر عسکریت پسندوں کا گڑھ سمجھی جاتی تھیں۔ پھر کئی سال پہلے پاکستانی فوج نے ان علاقوں میں کئی مرتبہ آپریشن کر کے ان شدت پسندوں کو وہاں سے تقریباﹰ نکال دیا تھا۔
خالد خراسانی کی ہلاکت کے ایک روز بعد کیا جانے والا حملہ
روئٹرز کے مطابق منگل کی دوپہر تک کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے اس خود کش حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی۔ پاکستانی سرحدی علاقے میں یہ حملہ ہمسایہ ملک افغانستان میں ہونے والے ایک دھماکے میں عمر خالد خراسانی کی موت کے ایک روز بعد کیا گیا۔ خراسانی پاکستان کا ایک بہت سرکردہ عسکریت پسند رہنما تھا، جس کے سر کی امریکہ نے تین ملین ڈالر قیمت لگا رکھی تھی۔
عمر خالد خراسانی کا اصل نام عبدالولی تھا اور وہ پاکستانی طالبان کی ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا بانی رکن ہونے کے علاوہ اس تحریک کا ایک سرکردہ رہنما بھی تھا۔ اس کی موت کو پاکستان میں سرگرم عسکریت پسندوں کے لیے بہت بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔
خراسانی کا تعلق جماعت الاحرار نامی اس عسکریت پسند تنظیم سے تھا، جسے امریکہ اور اقوام متحدہ دونوں نے ہی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
ماضی میں یہ ممنوعہ شدت پسند تنظیم پاکستان میں مقامی مسیحی اقلیت، شیعہ مسلمانوں، پولیس کے دستوں اور پاکستانی فوج کے قافلوں پر بہت سے ایسے خونریز حملوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے، جن میں مجموعی طور پر سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔
م م / ع ا (روئٹرز، اے پی)
شمالی وزیرستان: انسانوں کا سیلاب، مشکلات اور مصائب
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی شروع ہوتے ہی متاثرہ علاقوں سے لاکھوں انسانوں کی محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان متاثرین کی تاحال تعداد 6 لاکھ سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
وطن میں بے وطنی
چند سال پہلے وادیء سوات میں انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران بھی لاکھوں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا۔ اب شمالی وزیرستان جنگ کا میدان بنا ہوا ہے اور لوگ اپنا تھوڑا بہت مال اسباب سمیٹ کر اپنی جانیں بچا کر ایک انجانے مستقبل کی طرف نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ملک کے دیگر صوبوں کا رخ کرنے کی بجائے خیبر پختونخوا ہی کے مختلف حصوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
تا حد نظر گاڑیاں ہی گاڑیاں
شمالی وزیرستان سے بنّوں اور ملک کے دیگر وسطی علاقوں کی طرف آنے والی شاہراہوں پر آج کل اس طرح کے مناظر نظر آ رہے ہیں۔ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جانے والے لاکھوں افراد اپنے بال بچوں اور مویشیوں کو لے کر محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں۔ سخت گرمی میں یہ سفر بھی اُن کے لیے ایک بڑی مصیبت سے کم نہیں ہے جبکہ یہ بے یقینی اس کے علاوہ ہے کہ آگے جا کر ٹھکانہ کہاں ملے گا۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
کڑے امتحان کا وقت
شمالی وزیرستان کے باسی نقل و حمل کا ہر دستیاب ذریعہ استعمال کرتے ہوئے اپنے آبائی علاقوں سے نکل رہے ہیں۔ ویگنوں، بسوں یا ٹرکوں پر جسے کہیں تھوڑی سی بھی جگہ ملتی ہے، وہ بیٹھ کر ایک اَن دیکھے مستقبل کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے۔
تصویر: Danish Baber
ایک اَن دیکھے مستقبل کی جانب سفر
کل تک اپنے گھر کی چار دیواری میں رہنے والی یہ خواتین آج کھلے آسمان کے نیچے ہیں۔ جہاں کئی ایک شہری خیبر پختونخوا میں اپنے اپنے رشتے داروں کے ہاں قیام کر سکیں گے، وہاں زیادہ تر آئی ڈی پیز کو حکومت کی جانب سے خصوصی طور پر تیار کیے کیمپوں میں رہنا پڑے گا۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
ناقابل برداشت حالات
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ بچے اور ایک لاکھ دَس ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ شدید گرمی میں بچوں کو مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ گرمیوں میں شمالی علاقوں میں بھی درجہء حرارت اڑتالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
سخت گرمی میں لمبی لمبی قطاریں
اگرچہ آئی ڈی پیز کے رجسٹریشن کے لیے حکومت نے خاطرخواہ انتظامات کر رکھے ہیں، لیکن متاثرین کی کثیر تعداد کی وجہ سے ان کو کئی کئی روز تک سخت گرمی میں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ رجسٹریشن نہ ہونے کی صورت میں ان کو راشن اور دیگر سہولتیں نہیں مل سکتیں۔
تصویر: DW/D. Baber
’بس بیٹا، بنّوں آنے ہی والا ہے‘
آٹھ سالہ زینب کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے گھر والوں کے ساتھ پیدل میرعلی سے بنوں تک کا سفر کیا، راستے میں بھوک اور پیاس کی وجہ سے ان سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ ہر وقت اس کے والد اس کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتے تھے کہ بس ہم بنوں پہنچنے ہی والے ہیں، لیکن سفر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی راستے میں بہت بیمار ہو گیا تھا۔
تصویر: DW/D. Baber
کیمپوں میں طبی سہولیات
کیمپوں میں شدید گرمی کے موسم میں مختلف طرح کی وبائیں پھوٹ پڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان کیمپوں میں جگہ جگہ ڈاکٹر موجود ہیں، جو بیمار آئی ڈی پیز کا معائنہ کرتے ہیں اور اُنہیں مناسب ادویات دیتے ہیں۔
تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images
کیمپوں میں بیماریاں آئی ڈی پیز کی منتظر
محکمہ صحت اور دوسرے فلاحی اداروں نے جگہ جگہ پر کیمپ لگائے ہیں، جن میں متاثرین کو فوری اور مفت علاج کی سہولت دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ذیادہ تر لوگ تھکاوٹ اور گرمی کی وجہ سے پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جبکہ بچوں کو اس صدمے کی کیفیت سے نکالنے کے لیے بہت زیادہ پیار اور توجہ کی ضرورت ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
دن اور رات میلوں پیدل سفر
حاجی گل کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کے ساتھ میلوں کا سفر پیدل کیا، راستے میں اس کا چار سالہ بیمار پوتا موت کی آغوش میں چلا گیا اورایک جوان بیٹا کرفیو کی وجہ سے میران شاہ میں پھنس چکا ہے۔ اس سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہ تب ہی اپنے گاؤں جائے گا جب فوجی ان کے علاقے کو صاف کر دیں گے کیونکہ ان میں اس طرح باربار گھر چھوڑنے کی ہمت نہیں ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
عمر رسیدہ اور بیمار شہری
ڈوئچے ویلے کے نمائندے دانش بابر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ستر سالہ جمال وزیر کا کہنا تھا:’’کسی محفوظ جگہ تک پہنچنے کے لیے مَیں نے پورا ایک دن اور پوری ایک رات پیدل سفر کیا ہے۔ میں بوڑھا اور بیمار ہوں۔ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے، مَیں واپس وزیرستان جانا چاہوں گا۔‘‘
تصویر: Danish Baber
مدد کے لیے سرگرم ادارے
متاثرین کی امداد کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے مدد میں مصروف ہیں۔ بنوں میں متاثرین میں راشن تقسیم کرنے کے لیے تین مراکز بنائے گئے ہیں، جہاں ہر متاثرہ خاندان کو 92 سے93 کلو تک اَشیائے ضرورت دی جاتی ہیں، جن میں آٹا، دالیں، چینی، گھی اور دوسری اشیائے خورد و نوش بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
فوجی جوان ہر محاذ پر سرگرم
آئی ڈی پیز کیمپ اور راشن پوائنٹس کے انتظامات کی ذمہ داری پاک فوج کو سونپی گئی ہے۔ فوج کے جوان متاثرین کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ سخت سکیورٹی کے انتظامات بھی سرانجام دے رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
متاثرین کا ہر چیز کے لیے امداد پر انحصار
وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے شمالی وزیرستان کے بے گھر ہو جانے والے افراد کی امداد کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ راشن اور کھانے پینے کی دیگر اَشیاء کے حصول کے لیے متاثرین کو کئی کئی گھنٹے تک طویل قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تمام تر امدادی سرگرمیاں ناکافی محسوس ہو رہی ہیں اور لوگوں کی شکایات بڑھتی جا رہی ہیں۔