پاکستان صحافیوں کے لیے ہنوز خطرناک ترین ملک
21 دسمبر 2011دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2011 میں دنیا بھر میں کل43 صحافی ہلاک کیے گیے۔ ان میں لیبیا اور عراق میں پانچ پانچ صحافی اور میکسیکو میں تین صحافی ہلاک کیے گئے۔ عرب دنیا میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں بھی صحافیوں کواپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
یاد رہے دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس دنیا کے مختلف ملکوں میں مارے جانے والے پینتیس اور صحافیوں کی ہلاکت کے محرکات کے بارے میں بھی ابھی تحقیقات کر رہی ہے۔
اس کمیٹی کے مطابق پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں میں 29 صحافی مار ے گئے۔ کمیٹی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق مقتول صحافیوں کے قاتلوں کو سزا دینے کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا بھر میں سب سے بُرے ریکارڈ کا حامل ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی سیکرٹری جنرل امین یوسف کے مطابق پاکستان میں آج تک سو سے زائد صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مارے جا چکے ہیں۔ ان کے بقول کچھ صحافی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں، پریشر گروپوں ، فرقہ وارانہ اور شدت پسند تنظیموں کے کارکنوں کے ردعمل کا شکار ہو کر جان کی بازی ہارگئے جبکہ بعض صحافی دہشت گردی کی وارداتوں اور جنگی علاقوں میں ناکافی حفاظتی اقدامات کے تحت فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جان کھو بیٹھے۔ ان کے بقول صحافیوں کو اغوا، تشدد اور دھمکیوں سمیت کئی قسم کے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ ان کو کبھی خبر نہ دینے اور کبھی غلط خبر دینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
سینئر صحافی حامد میر کے مطابق سلیم شہزاد اور ولی خان بابر سمیت بہت سے صحافیوں کے قاتلوں کو ابھی تک کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ان کے بقول بلوچستان میں تو صحافیوں پر ہونے والی زیادتیوں کا مقدمہ تک درج نہیں ہو پاتا۔ حامد میر کے مطابق بلوچستان کے حوالے سے ایک پروگرام کرنے پر خود انہیں بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
کراچی میں وقت ٹی وی کی ایک اینکر بتول راجپوت کو ایک سیاسی جماعت کی رہنما کے انٹرویو کے دوران ایک ’مشکل‘ سوال پوچھنے پرچند دن پہلے ہراساں کیا گیا۔
ساوتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے سینیئر رہنما امتیاز عالم نے بتایا کے پاکستان میں صحافتی فرائض کی انجام دہی مشکل ہوتی جارہی ہے۔
عدم برداشت والے معاشرے اور جنگی حالات والے اس خطے میں فرائض سرانجام دینے والے صحافیوں کو بعض اوقات تنخواہیں بھی بروقت نہیں ملتیں اور نہ ہی انہیں انشورنس اور حفاظتی سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ان کے بقول سن دو ہزار گیارہ میں پاکستانی میڈیا کے ایک حصے نے سیاسی حکومت کے احتساب کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام کو متزلزل کرنے کی بھی کوشش کی جو کہ درست نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ با اثر اداروں کی طرف سے پریس کلبوں کے انتخابات میں مداخلت کرنے اور صحافیوں کو دھمکانے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔
پی ایف یو جے کے سابق سیکریٹری جنرل شمس ا لاسلام کا کہنا ہے کہ رواں برس تین ٹی وی چینل بند ہوئے، چار سو پچپن صحافیوں کو نکالا گیا، ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ پر عمل نہیں ہو سکا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کی سپریم کورٹ کی طرف سے ویج بورڈ ایوارڈ کے حوالے سے صحافیوں کے حق میں فیصلہ آیا۔ عالمی صحافتی تنظیموں نے پاکستانی صحافیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا اور جمہوری حکومت کی طرف سے صحافیوں پر دباؤ کی شکایات نہیں ملیں۔ ُان کے بقول حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا اب بھی پوری طرح آزاد نہیں ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں