پاکستان: صحافی کے لاپتہ ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر رد عمل
شمشیر حیدر
24 اکتوبر 2020
پاکستان میں نجی چینل جیو نیوز سے وابستہ صحافی علی عمران سید گزشتہ روز سے لاپتہ ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے شدید ردِ عمل دیکھا جا رہا ہے۔
اشتہار
علی عمران سید نے پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی کراچی میں گرفتاری کی فوٹیج حاصل کی تھی جسے نجی چینل پر نشر کیا گیا تھا۔
صحافی کہاں سے لاپتہ ہوئے
علی عمران سید کے لاپتہ ہونے کے چند گھنٹوں بعد ریکارڈ کیا گیا ان کی اہلیہ کا ایک ویڈیو پیغام بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول علی عمران گھر سے آدھے گھنٹے میں واپس آنے کا کہہ کر نکلے تھے جس کے بعد سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ لاپتہ صحافی کی اہلیہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ گھر سے پیدل ہی بسکٹ لینے نکلے تھے اور ان کی گاڑی اور موبائل بھی گھر پر ہی موجود ہے۔
'پاکستان کا نام اغوانستان رکھ لیں‘
صحافی کے لاپتہ ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین، سیاست دانوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ گزشتہ روز سے ٹوئٹر پر 'علی عمران سید کو واپس لاؤ‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔
سلیم صافی نے ساتھی صحافی کے لاپتہ ہونے کی خبر شیئر کرتے ہوئے خبردار کیا، ''بہتر ہے پاکستان کا نام بدل کر اغوانستان رکھ لیں۔ یاد رکھیے اناؤں کی تسکین کے لیے اغواؤں کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اس ملک کو خانہ جنگی سے کوئی نہیں روک سکے گا۔‘‘
صحافی غریدہ فارروقی نے علی عمران کی اہلیہ کا ویڈیو پیغام ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا، ''جیو نیوز کے رپورٹر علی عمران سید کو اپنا کام کرنے پر اٹھا لیے جانے/اغوا کی شدید مذمت کی جاتی ہے ۔۔۔ صحافت جرم نہیں ہے۔‘‘
لاپتہ صحافی کے چینل سے وابستہ سینیئر صحافی حامد میر نے ٹوئیٹ کیا، ''مریم نواز صاحبہ نے کہا ہے کہ جیو نیوز کے رپورٹر علی عمران سید کو اغوا کر کے شمالی علاقہ جات کی سیر کے لیے بھجوایا گیا ہے، ان کی بات سن کر مجھے مطیع اللہ جان یاد آ گئے جو لاپتہ ہونے کے 12 گھنٹے بعد واپس آ گئے تھے۔ دعا کریں علی عمران سید بھی خیریت سے واپس آ جائیں۔‘‘
پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے حق میں بولنے والے صحافی کامران خان نے بھی علی عمران کی گمشدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے لکھا، ''جیو نیوز کے بہترین اور انتہائی محنتی رپورٹر علی عمران کی گمشدگی انتہائی تشویش اور پریشان کن معاملہ ہے۔ پولیس وقت ضائع کیے بغیر انہیں بازیاب کرائے اور سندھ حکومت اس بہیمانہ واقعے پر اپنی خاموشی توڑے۔‘‘
سلیم صافی نے بھی صوبہ سندھ میں برسراقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ سندھ کی اس معاملے پر خاموشی پر شدید تنقید کی۔
پاکستان مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کسی کا نام لیے بغیر کہا، ''یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ آپ نے جس طرح میرے کمرے پر حملہ کر کے بہت زیادہ بدنامی کما لی ہے، اس طرح سے اغوا کر کے اور لوگوں کو سچ اور حق بولنے کی سزا دے کر مزید بدنامی نہ کمائیں، اس روایت کو ختم ہونا چاہیے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا کے ٹوئٹر ہینڈل سے کی گئی ٹوئیٹ میں کہا گیا، ''پاکستان میں جیو نیوز کے رپورٹر علی عمران کراچی میں گزشتہ روز سے لاپتہ ہیں اور خدشہ ہے کہ انہیں اپنی رپورٹنگ کے باعث جبری گمشدہ کیا گیا ہے۔ حکام فوری طور پر ان کا محل وقوع معلوم کریں۔‘‘
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔