پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ’مخلص‘ ہے، نواز شریف
10 اکتوبر 2013شورش زدہ شمال مغربی شہر پشاور میں ایک سیکورٹی اجلاس کے بعد خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے کے آغاز کے لیے پیشرفت کی گئی ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کا یہ بیان پاکستانی طالبان باغیوں کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات کے لیے حکومت نے ’کوئی بھی سنجیدہ اقدامات‘ نہیں اٹھائے ہیں۔ نواز شریف کا کہنا تھا، ’’ حکومت مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی ایسے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مخلص ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس (APC ) میں لیے گئے فیصلوں پر سنجیدگی سے عمل درآمد جاری ہے۔‘‘
پاکستان کی تمام اہم پارٹیوں نے گزشتہ ماہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنانے پر اتفاق کیا تھا تاکہ ملک میں سن 2007ء سے جاری خونی کارروائیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
حکیم اللہ محسود کا برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اس وقت تک نشانہ بنائیں گے، جب تک امریکی ڈرون حملے بند نہیں ہو جاتے۔
اپنے اس انٹرویو میں حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سےحکیم اللہ محسود کا کہنا تھا،’’حکومت نے اس مناسبت کوئی باضابطہ رابطہ نہیں کیا، مذاکرات کا طریقہ کار واضح ہے اگر فریقین بات چیت میں سنجیدہ ہوں تو وہ مل بیٹھ سکتے ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس آل پارٹیز کانفرنس کے جواب میں مذاکرات سے قبل ہی تحریک طالبان پاکستان نے مطالبات کی ایک لمبی فہرست پیش کر دی تھی۔ اعتماد سازی کے ان مطالبات میں قبائلی علاقوں میں فوج کی واپسی اور مکمل فائر بندی سمیت دیگر مطالبات شامل تھے۔
دوسری طرف حالیہ دنوں میں پشاور میں ہونے والے مختلف بم حملوں میں 140 افراد کی ہلاکت نے اس مذاکراتی عمل کے حوالے سے بہت سے سوالوں کو جنم دیا۔ تحریک طالبان پاکستان اور بیت اللہ محسود پر یہ الزام ہے کہ وہ پاکستان میں ہزاروں عام شہریوں کی موت کےذمہ دار ہیں۔
حکیم اللہ محسود سن 2009ء سے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کر رہے ہیں۔ تاہم محسود کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں ہونے والے حملوں میں ملوث نہیں ہیں۔