1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان طالبان کے لیے افغان سرزمین تنگ ہوتی ہوئی

عابد حسین5 دسمبر 2014

افغان صوبے کنڑ کے گورنر نے بتایا ہے کہ ایک ضلع میں مقامی لوگوں نے فوج اور پولیس کی مدد سے پاکستان طالبان کو اپنے علاقے سے باہر دھکیلنے کے سلسلے کو شروع کر دیا ہے۔ پاکستانی طالبان کو امریکی ڈرون حملوں کا بھی سامنا ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo

افغانستان میں پناہ لینے والے پاکستانی طالبان کے مقامی قبائلیوں کے ساتھ تعلقات مسلسل خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اِس مسئلے کو بھی افغان فورسز مؤثر انداز میں استعمال کر رہی ہیں۔ افغان سکیورٹی حلقے تواتر سے خراب ہوتے تعلقات کو ہوا بھی دے رہے ہیں۔

پاکستانی سرحد سے منسلک افغان صوبے کُنڑ کے گورنر شجاع اُلمُلک جلالہ کا کہنا ہے کہ اُن کے صوبے کے ایک ضلع دانگام میں گیارہ بارہ روز قبل مقامی افراد نے پاکستانی طالبان کے خلاف عملی اقدام کرتے ہوئے ایک طرح کی بغاوت پیدا کر دی۔

گورنر شجاع اُلمُلک جلالہ کا مزید کہنا تھا کہ دانگام کے قریبی دیہات کے باسیوں کو افغان پولیس اور فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور انہوں نے پاکستانی طالبان کو علاقے سے باہر نکال دینے کے عمل کا آغاز کیا ہے۔

اکستانی طالبان کو اپنے ملک میں فوج کے شروع کردہ آپریشن ضربِ عضب کا بھی سامنا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

کنڑ صوبے کے گورنر کے مطابق دیہاتیوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں پاکستانی طالبان کی جانب سے خطرات کا سامنا تھا اور یہ عسکریت پسند افغان فوج پر بھی حملوں سے گریز نہیں کرتے تھے۔ شجاع اُلمُلک جلالہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقامی سینئر افراد کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اچھے اور بُرے پاکستانی طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے اور اسی باعث اِن کو نکال باہر کرنے کی مہم کو شروع کیا گیا ہے۔

پاکستانی طالبان کے ایک کمانڈر نے اِس صورت حال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان فوج نے چند پاکستانی طالبان کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔ عسکریت پسند کمانڈر کے ایک ساتھی کا کہنا تھا کہ ماضی میں افغان فوج اُن علاقوں کو نظر انداز کرتی تھی جہاں انہوں نے ڈیرہ لگایا ہوتا تھا اور وہ انہیں خوراک دینے سے بھی نہیں کتراتے تھے لیکن اب وہ اُن کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی طالبان کو اپنے ملک میں فوج کے شروع کردہ آپریشن ضربِ عضب کا بھی سامنا ہے۔

دفاعی امور کے بین الاقوامی میگزین جین کے دہشت گردی اور مزحمت کے شعبے کے سربراہ میتھیو ہین مین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک دو ماہ کے دوران افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کُل 56 ڈرون حملے گئے اور ان میں سے 30 صرف ستمبر میں ہوئے تھے۔

اِن حملوں میں ایک دو مقامات پر پاکستانی طالبان کی ہلاکت کو بھی رپورٹ کیا گیا ہے۔ اِن حملوں کی وجہ سے افغان طالبان بھی کئی علاقوں میں فعال نہیں رہے اور پاکستانی طالبان کا حال بھی خاصا خستہ ہے۔ چار پاکستانی طالبان کمانڈروں نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا ہے کہ ڈرون حملوں کے علاوہ مقامی قبائلیوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے وہ چھوٹے افغان قصبوں سے پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں