1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: طالبان کے مزید ساتھیوں کی رہائی تنقید کی زد میں

شکور رحیم، اسلام آباد7 اپریل 2014

پاکستان میں حکومت کو طالبان کے مطالبے پر ان کے غیر جنگجو قیدیوں کی رہائی پر حزب اختلاف کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے طالبان قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ حکومت کا ہے فوج کا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قیدیوں کی رہائی پر فوج کو اعتماد میں لے ورنہ بد اعتمادی سے نظام کو نقصان ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت یکطرفہ طور پر طالبان قیدیوں کو رہا کر رہی ہے اور طالبان کی جانب سے کسی قسم کی پیشرفت نہیں ہو رہی۔ خورشید شاہ کا مزیدکہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کو رہا نہیں کیا گیا تو پیپلز پارٹی ردعمل کرےگی۔

’’طالبان حکومتی لچک کا مکمل فائدہ اٹھا رہے ہیں‘‘تصویر: picture-alliance/AP Photo

ادھر سندھ کی صوبائی اسمبلی نے طالبان کی قید میں موجود سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے حیدر گیلانی، پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کےصاحبزادے شہر یار تاثیر اور پشاور یونیورسٹی کے ڈپٹی کنٹرولر پروفیسر اجمل کی رہائی کے لئے متفقہ قرارداد بھی منظور کی۔

دوسری جانب حکومتی عہدیداروں کا مؤقف ہے کہ مذاکرات پر تنقید کرنے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ بات چیت کا عمل آگے بڑھنے سے ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مزید 13 طالبان قیدیوں کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ظاہر ہے کہ جب اعتماد کی فضاء اور بہتر ہوگی جب ہم امن کی طرف پیشرفت کریں گے تو اور قیدی رہا ہوں گے۔ لیکن اس کے لیے یہ نقطہ بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں اطراف سے ہوگا تو تب ہی یہ عمل بہتر آگے بڑھے گا اور اس سے پاکستان کے طول و عرض میں ایک اعتماد کی فضاء بحال ہو گی۔‘‘

پاکستانی حکومت گزشتہ ہفتے 19 غیر جنگجو قیدیوں کو رہا کر چکی ہے اور 13 مزید طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے یہ تعداد 32 ہو جائے گی۔

ادھر طالبان کی جانب سے ابھی تک کسی بھی قیدی کی رہائی کا عندیہ نہیں دیا گیا۔ البتہ طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے میڈیا کو بتایا تھا کہ وہ آئندہ ملاقات پر طالبان سے ان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بات کریں گے۔

دفاعی تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ طالبان حکومتی لچک کا مکمل فائدہ اٹھا رہے ہیں: ’’ایک اصول اگر حکومت کے لیے لاگو ہے یا طالبان اس پر عمل چاہتے ہیں تو اسی اصول پر ان کی طرف سے بھی عمل ہونا چاہیے تھا۔ اگر آپ نے دس چھوڑے ہیں تو وہ کسی ایک کو ہی رہا کر دیتے۔ یہ صورتحال اگر ایسی ہی رہی تو پھر آپ ان کے مطالبات پورے کرتے رہیں گے اور وہ آپ سے وقت لیتے رہیں گے اور معاملات وہیں لٹکے کے لٹکے رہیں گے۔ تو میں سمھجتا ہوں یہ حکومت کی کمزوری ہے اس طرح مذاکرات کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔‘‘

شمالی وزیرستان پر آخری ڈرون حملہ 26 دسمبر 2013 ء کو ہوا تھاتصویر: Getty Images

پاکستان میں آخری ڈروں حملے کو 100 دن

دریں اثناء پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون میزائل حملوں کے تعطل کو گزشتہ اتوار کو ایک سو دن مکمل ہو گئے ہیں۔ شمالی وزیرستان پر آخری ڈرون حملہ 26 دسمبر 2013 ء کو ہوا تھا۔ گزشتہ تقریبا دس سال سے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ہونے والے امریکی میزائل حملوں میں اندازوں کے مطابق تین ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ حکام کے مطابق ان میں زیادہ تعداد مشتبہ القاعدہ اور طالبان ارکان کی ہے۔ جبکہ انسانی حقوق کی تنظمیوں کے مطابق ان حملوں میں سینکڑوں کی تعداد میں عام قبائلی بھی لقمہ ء اجل بنے ہیں۔ پاکستانی حکومت ان حملوں کو اپنے ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے علاوہ بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی بھی قرار دیتی ہے۔

یکم نومبر 2013 ء کو ایک ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ان حملوں کو پاکستان میں قیام امن کی کوششوں کے لیے دھچکا قرار دیا تھا۔

تاہم دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سو دن تک ڈرون حملے نہ ہونے سے قبائلی علاوں میں موجود طالبان جنگجوؤں کو دوبارہ منظم ہونے میں یقنا مدد ملی ہو گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں