پاکستان عالمی کپ فٹ بال سے پھر باہر
4 جولائی 2011ڈھاکہ میں گزشتہ ہفتے میزبان ملک کے ہاتھوں تین صفر کی ناکامی کا سامنا کرنے والی پاکستانی ٹیم کو ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے اگلے مرحلے تک رسائی کےلیے یہ میچ چار صفر سے جیتنا ناگزیر تھا مگر وہ مقررہ 90 منٹس میں وہ اپنے حریف کی طرح کوئی گول نہ کر سکی۔ اس طرح ماضی کی طرح دو ہزار چودہ کے برازیل میں ہونے والے فٹبال عالمی کپ میں بھی پاکستان کی شرکت کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
پاکستانی ٹیم کے کوچ طارق لطفی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ناکامی کا ملبہ ڈھاکہ کی بارش پر گرایا، جس میں فیفا نے ان کی ٹیم کو پہلا میچ کھیلنے پر مجبور کیا تھا۔ طارق لطفی کا کہنا تھا کہ چار گول ہدف ہونے کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں پر لاہور کے میچ میں بہت دباؤ تھا۔ انٹر نیشنل فٹ بال میں اس مارجن سے جیتنا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ پاکستانی ٹیم نے بنگلہ دیش کے خلاف جارحانہ کھیل پیش کیا مگر گول نہ کر سکی، جس کا انہیں افسوس ہے۔ طارق لطفی کے مطابق ڈھاکہ میں بارش میں کھیلنے کی وجہ سے نتیجہ ہمارے خلاف آیا کیونکہ ہمارے لڑکے اس موسم میں کھیلنے کے عادی نہ تھے۔
سابق پاکستانی کپتان آغا لطیف کے مطابق پاکستانی کھلاڑیوں کے انفرادی کھیل کے سبب بنگلہ دیشی ٹیم اپنی دفاعی حکمت عملی میں کامیاب رہی۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی ٹیم ڈرا کے لیے کھیل رہی تھی، جبکہ ہمارے کھلاڑی انفرادی کھیل پیش کر رہے تھے۔ عالمی کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے پہلے مرحلے سے باہر ہونے پر پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا یورپی لیگ کھیلنے والے تارکین وطن پاکستانی فٹ بالرز کو قومی ٹیم میں شامل کرنے کا تجربہ بھی ناکام ہو گیا۔ یہ تارکین وطن فٹ بالرز ہر بار اپنی مصروفیات کے سبب پاکستان آکر تربیتی کیمپوں میں شرکت کے بغیر براہ راست بین الاقوامی ٹورنامنٹس کھیلتے ہیں، جس کے سبب بنگلہ دیش کے خلاف بھی دونوں میچوں میں مقامی کھلاڑیوں کے ساتھ ان کی ہم آہنگی اور تال میل کا فقدان صاف نظرآیا۔
طارق لطفی کا کہنا تھا کہ بیرون ملک کے کھلاڑی بہت کم وقت کے لیے یہاں آتے ہیں کیونکہ جو تین کھلاڑی باہر سے آکر پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کے لیے کھیل رہے ہیں، ان کی شمولیت سے بھی پاکستان ٹیم نے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستانی لیگ کا معیار بلند ہو جائے تو ایسے کھلاڑیوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے میچ کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ واضح رہے کہ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر تین مارچ2009ء کو ہونے والے خونریز حملے کے بعد یہ لاہور میں کھیلوں کا پہلا بڑا بین اقوامی مقابلہ تھا ۔
بنگلہ دیشی کی ٹیم نے جسے فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے سیکورٹی تحفظات مسترد کر تے ہوئے لاہور بھیجوایا تھا۔ پنجاب کے دارالحکومت میں ایسی اچھی یادیں سمیٹیں کہ وہ پاکستان کی میزبانی کو بھی سراہے بغیر نہ رہ سکی۔ ایک طرف بنگلہ دیشی ٹیم تو فیفا کی یقین دہانی پر پاکستان آکر میچ کھیل گئی مگر دوسری جانب حیران کن طور پر پاکستانی ٹیم کے انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے تارک وطن ڈیفنڈر ذیشان الرحمان کے سیکورٹی خدشات ان کے اپنے کوچ بھی دور نہ کر سکے اور ذیشان نے پاکستان آکر میچ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ اس بابت کوچ طارق لطفی نے بتایا’’ میں نے ذیشان کو قائل کرنے کی پوری کوشش کی مگر شاید وہ اپنے گھر والوں کی ہدایت پر یہاں نہیں آیا‘‘۔
فٹ بال کی دنیا میں کسی بھی بڑی شکست کا نزلہ کوچ پر ہی گرتا ہے۔ طارق لطفی نے اپنے مستقبل کے بارے میں بتایا کہ وہ اس بار پاکستان ٹیم کی کوچنگ میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے ۔ فیڈریشن نے انہیں چھ ماہ قبل ایک سال کے لیے یہ ذمہ داری سونپی ہے۔’’ مجھے نتائج سے کافی مایوسی ہوئی ہے کیونکہ اگر ڈھاکہ میں فیئر چانس ملتا تو ہم عالمی کپ کے لیے کوالیفائی کر سکتے تھے بہرحال اب میرے کل کا فیصلہ خود فیڈریشن کرے گی‘‘۔ یاد رہے کہ پاکستان فٹ بال جس کی باگ ڈورگز شتہ دس برس سےملک کے ایک بڑے سیاستدان سید فیصل صالح حیات کے ہاتھ میں ہے،اس کی عالمی رینکنگ حالیہ برسوں میں سترہ درجے کی تنزلی کے بعد تاریخ کی بدترین سطح پر ایک سو اڑسٹھ تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ : طارق سعید، لاہور
ادارت : عدنان اسحاق