پاکستان عسکریت پسندوں کا محفوظ ٹھکانہ نہیں رہا: عمران خان
18 فروری 2020پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ اُن کا ملک اب عسکریت پسندوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ نہیں رہا اور اُن کی انتظامیہ افغان امن مذاکرات کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے ان دعوؤں کو تاہم شورش زدہ صوبے بلوچستان میں ہونے والے ایک دہشت گردانہ واقعے نے چیلنج کر دیا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے اس بیان کے چند گھنٹوں کے اندر اندر ہی کوئٹہ سے خبر موصول ہوئی کہ وہاں ایک خودکش بمبار نے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں ایک مذہبی ریلی کو نشانہ بنایا۔ کوئٹہ کی شارع اقبال پر ہونے والے اس خودکش دھماکے کے نتیجے میں دو پولیس اور ایک لیویز اہلکار سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
کوئٹہ کی پولیس نے اس خودکش حملے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا جبکہ دھماکے کے خلاف کوئٹہ میں آج شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ دریں اثناء پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کوئٹہ کی تاجر برادری اور دیگر جماعتوں نے حمایت کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم کے افغان امن مذاکرات سے متعلق تبصرے کو امریکا اور طالبان کے مابین معاہدے کی کوششوں کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
اس وقت امریکا اور طالبان ایک معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں جس میں سب سے اہم امر یہ ہے کہ امریکی افواج افغانستان سے انخلا شروع کر دے اور اس کے بدلے میں، طالبان افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کریں گے، مختلف حفاظتی ضمانتوں پر قائم رہیں گے اور حتمی، جامع جنگ بندی کی طرف کام کریں گے۔
پاکستان پر طویل عرصے سے افغانستان سے متصل سرحد پر طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کی حمایت کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اب امریکا اور طالبان کے مابین کسی بھی معاہدے کو محفوظ بنانے اور اس پر عمل درآمد کرنے میں پاکستان کو کلیدی حیثیت کے حامل ملک کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا،''میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہاں کوئی محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں۔‘‘ عمران خان کا مزید کہنا تھا ''ماضی میں جو بھی صورت حال رہی ہو، ابھی میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ ہم صرف اور صرف ایک چیز چاہتے ہیں اور وہ ہے افغانستان میں امن۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم کے اس بیان سے قبل افغانستان کے دوسرے نائب صدر سرور دانش کی جانب سے پاکستان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اُس نے پاکستان میں قائم افغان مہاجر کیمپوں سے طالبان کے نئے جنگجوؤں کی طالبان میں بھرتی کی اجازت دی ہے۔
عمران خان اپنے ملک میں افغان مہاجرین کی میزبانی کے 40 سالوں کی مناسبت سے منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اگرچہ پاکستان اس بات کی ''پوری ضمانت نہیں دے سکتا ہے کہ اس ملک میں بسنے والے 27 لاکھ افغان باشندوں کے درمیان کوئی طالبان چھپا نہیں ہے‘‘ تاہم عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت نے سرحد میں باڑ لگانے سمیت افغانستان میں حملوں کی روک تھام کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔
امریکی امن مندوب زلمے خلیل زاد ، جنہوں نے ایک سال سے زیادہ عرصے سے طالبان اور واشنگٹن کے مابین مذاکرات کی قیادت کی ہے ، نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ حتمی معاہدے کی طرف پیشرفت کے بارے میں ''محتاط طور پر پر امید ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا ،''سلامتی کے معاملات میں امریکا نے طالبان سے وعدے کیے ہوئے ہیں۔‘‘
خیال کیا جا رہا ہے کہ طالبان، افغانستان کی سکیورٹی فورسز اور ''تشدد میں سات روزہ کمی‘‘ پراتفاق کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ یہ اقدام پورے معاہدے کے اعلان سے قبل اعتماد سازی کے اقدام کا ایک حصہ ہے، جس کا اعلان گزشتہ ہفتے حکام نے کیا تھا۔
تاہم گزشتہ اختتام ہفتہ پر افغانستان میں خونریزی کا سلسلہ جاری رہا، جس میں صوبہ قندوز میں طالبان کا حملہ بھی شامل ہے۔ 1979 ء میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد افغان مہاجروں کی پاکستان ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور طالبان کے دور حکومت میں بھی یہ سلسلہ جا رہا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش، جو پاکستان کے دورے پر ہیں، نے پاکستان میں افغان مہاجرین کی میزبانی پر پاکستانی قوم کو سراہا۔
انہوں نے پاکستان کی سلامتی کی صورتحال کی '' قابل ذکر تبدیلی‘‘ کی بھی تعریف کی۔
ک م / ع ا/ اے پی، اے ایف پی