1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، گردوں کی فروخت کے الزام میں گروہ گرفتار

14 مارچ 2023

حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والوں میں کم از کم تین مشتبہ ڈاکٹر ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان اور سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے دو غیر ملکیوں کو بھی گردے خریدنے کے شبے میں حراست میں لیا گیا ہے۔

Bonn Nierentransplantation in einer Klinik in Nordrhein Westfalen
تصویر: Ute Grabowsky/photothek/picture alliance

پاکستانی حکام نے پیر کو گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری یا 'ٹرانسپلانٹ' اور غیر ملکیوں کو ان اعضا کی فروخت کے الزام میں ایک گروہ کے کم از کم 10 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

یہ گرفتاریاں پیر کی رات راولپنڈی میں رینجرز اور پولیس کی ایک مشترکہ کارروائی کے دوران عمل میں آئیں، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں نے ایک کلینک پر چھاپہ مار کر ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا۔

لاہور، انسانی اعضاء فروخت کرنے والا گروہ پکڑا گیا

اس حوالے سے پنجاب ہیومن اورگن اینڈ ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کی ٹیم کی سربراہی کرنے والے عہدیدار حسن اختر کا کہنا تھا کہ گرفتار  کیے جانے والوں میں کم از کم تین مشتبہ ڈاکٹر اور گردے خریدنے والے دو غیر ملکی افراد، جن کا تعلق سعودی عرب اور افغانستان سے ہے، شامل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس گروہ کے دیگر افراد کی گرفتاری کے لیے آج بروز منگل کو بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

انسانی جسم میں گردے کام کیسے کرتے ہیں؟

03:37

This browser does not support the video element.

یہ گروہ مبینہ طور پر وسطی پنجاب کے دیہاتوں اور چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو دولت مند غیر ملکیوں کو گردے فروخت کرنے پر قائل کرتا رہا ہے۔ گردے خریدنے والے ان غیر ملکی افراد میں سے اکثر کا تعلق سعودی عرب اور یورپ سے ہوتا ہے۔

اسلام آباد میں گردوں کا علاج کرنے والے ایک ڈاکٹر کے مطابق ان کیسز میں غیر ملکی افراد ایک ٹرانسپلانٹ کے عوض 50,000 یورو تک دیتے ہیں لیکن اس رقم کا بڑا حصہ سودا کرانے والے افراد کے پاس جاتا ہے جبکہ گردہ فروخت کرنے والوں کے حصے میں تقریباﹰ 3,000 یورو آتے ہیں۔

پنجاب میں گردوں کی غیرقانونی خرید و فروخت عام کیوں؟

پاکستان میں جسمانی اعضا کی غیر قانونی فروخت کی روک تھام کے لیے 2010ء میں ایک قانون نافذ کیا گیا تھا، جس کے تحت اس عمل کے نتیجے میں مجرمان کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی تھی۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بدعنوانی، بڑھتی غربت اور اس جرم میں ملوث گروہوں کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے یہ قانون اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔

م ا/ ع ا (ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں