پاکستان قبائلی علاقوں میں کریک ڈاؤن کی ضرورت سے آگاہ ہے، پیٹریاس
24 نومبر 2010افغانستان میں طالبان کے خلاف نیٹو اتحاد کے آپریشن کے حوالے سے پیرس کی ایک یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا کہنا تھا، 'انہوں نے شمالی وزیرستان میں مزید فوجی کارروائی کی ضرورت کو محسوس کرلیا ہے۔’
واشنگٹن حکومت افغان سرحد کے قریب پاکستان کے قبائلی علاقوں کو طالبان اور القاعدہ کا گڑھ سمجھتی ہے، تاہم پاکستانی حکومت وہاں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف زمینی فوجی کارروائی کے لیے امریکی مطالبات پر عملدرآمد سے پس وپیش سے کام لیتی رہی ہے۔
پیرس میں لیکچر کے دوران امریکی جنرل نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہا، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قبائلی علاقے میں ابھی 'مزید کارروائی' کی ضرورت ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ ان قبائلی علاقوں میں امریکہ کی جانب سے اکثروبیشتر مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون حملے کیے جاتے ہیں۔ ان ڈرون حملوں میں گزشتہ دو ماہ کے دوران ڈرامائی اضافہ ہوا ہے، جبکہ ستمبر کے آغاز سے اب تک ایسے حملوں میں ڈھائی سو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں تعینات غیرملکی فوج کے امریکی کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس لزبن سے پیرس پہنچے تھے، جہاں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہوں نے اختتام ہفتہ پر افغان جنگ کے حوالے سے اپنے نئے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ اس منصوبے کے مطابق اگلے برس کے دوران افغانستان کی سلامتی کی ذمہ داری بتدریج افغان سکیورٹی فورسز کو منتقل کرنا شروع کردی جائے گی اور سال 2014ء تک مکمل طور پر یہ ذمہ داریاں افغانستان کو سونپ دی جائیں گی۔
امریکہ اور نیٹواتحاد کے قریب ایک لاکھ 40 ہزار فوجی اس وقت افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں جو اب اپنے دسویں برس میں داخل ہوگئی ہے۔ غیرملکی افواج کی طرف سے اب تک ایک لاکھ 36 ہزار افغان فوجیوں جبکہ ایک لاکھ 20 ہزار کے قریب پولیس اہلکاروں کو تربیت فراہم کی جاچکی ہے۔ مزید افغان دستوں کی تربیت اگلے برس نومبر تک جاری رہے گی۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: ندیم گِل