1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مذہبی گروپ ٹرانس جینڈر قانون کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

24 ستمبر 2022

پاکستان میں ایک مذہبی سیاسی پارٹی نے ایک ایسے قانون کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی ہے جو ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق یقینی بنانے کے لیے منظور کیا گیا۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ قانون ہم جنس شادیوں کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018ء پاکستانی شہریوں کے اس حق کو یقینی بناتا ہے کہ وہ خود کو مرد، عورت یا کسی ایسے فرد کے طور پر شناخت اختیار کر سکتے ہیں جس میں دونوں اصناف موجود ہوں۔ ساتھ ہی اس شناخت کو سرکاری طور پر رجسٹر بھی کرا سکتے ہیں جن میں پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور تعلیمی اسناد سمیت دیگر سرکاری دستاویزات شامل ہیں۔

پاکستانی پارلیمان نے یہ قانون مئی 2018ء میں منظور کیا تھا لیکن اس پر بحث حالیہ ہفتوں کے دوران سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے۔ ناقدین اس قانون کی ایک خاص شق پر تنقید کر رہے ہیں جس میں کہا گیا ہے، ''ایک ٹرانس جینڈر شخص کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنی ذاتی سمجھ کے مطابق اپنی صنفی شناخت اختیار کر سکے۔‘‘

سارہ گِل، پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر

06:21

This browser does not support the video element.

مذہبی جماعت کی طرف سے پٹیشن دائر

پاکستانی مذہبی رہنماؤں کی طرف سے ٹرانس جینڈر قانون کی اس شق کی مذمت کی گئی ہے، جس کے بعد پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے ملک کی وفاقی شرعی عدالت میں ایک پٹیشن جمع کرائی ہے۔ یہ عدالت سول عدالتوں سے الگ ہے اور اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ اس بات کا جائزہ لے سکتی ہے کہ کوئی قانون شریعت سے متصادم تو نہیں ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس قانون سے یہ شق ختم کرنے کی درخواست کی ہے جس میں ٹرانس جینڈر درخواست گزاروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ دستاویزات میں صنف کی تبدیلی کی درخواست دے سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی بجائے یہ اس کا فیصلہ ایک میڈیکل بورڈ کی جانب سے کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنس کی تبدیلی کا اختیار اس قانون میں ایک متنازعہ چیز ہے۔

قبل ازیں سینیٹر مشتاق احمد خان نے نومبر 2021ء میں سینیٹ میں اس قانون میں ایک ترمیم کی تجویز دی تھی تاہم اس وقت کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی تھی۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے قانون اور انصاف اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ یہ قانون ''امتیازی سلوک کی شکار ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے تحفظ اور انہیں تعلیم، وراثت میں حصہ، صحت اور روزگار کا حق دینے‘‘ کے لیے پاس کیا گیا تھا۔

تارڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ قانون تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے مشترکہ طور پر اور مکمل اتفاق رائے کے ساتھ منظور کیا گیا تھا اور اس سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل سے مشورہ بھی کیا گیا تھا۔ یہ کونسل اسلامی معاملات سے متعلق پاکستانی حکومت کو قانونی مشورہ دیتی ہے۔

پاکستانی سپریم کورٹ نے 2009ء میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ ٹرانس جینڈر افراد کو جنہیں مقامی طور پر ہیجڑا کہا جاتا ہے، وہ قومی شناختی کارڈ میں اپنی صنف 'تیسری جنس‘ کے طور پر رجسٹر کرا سکتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی ٹرانس جینڈر افراد اس اسلامی ملک میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں اور تعلیم اور روزگار کے مواقع بہت ہی کم دستیاب ہوتے ہیں۔

پاکستان میں 2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ملک میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد 10 ہزار کے قریب تھی تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کے مطابق 220 ملین کی آبادی والے اس ملک میں ٹرانس جینڈر افراد کی اصل تعداد تین لاکھ سے زائد ہے۔

پاکستان کی اولین ڈریگ کوئین

04:36

This browser does not support the video element.

انسانی حقوق کے ایک سینیئر کارکن اسامہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس قانون سے قبل پاکستانی قانون صرف مردوں اور خواتین سے متعلق معاملات سے نمٹتے تھا اور جو لوگ ان دونوں میں پورے نہیں اترتے تھے تو پھر انہیں اس جنس کو ہی اختیار کرنا پڑتا تھا جو پیدائش کے وقت درج کرائی گئی تھی۔ اس کی وجہ سے ایسے افراد کے ساتھ اسکولوں میں داخلے، ملازمتوں کے مواقع اور اکاؤنٹ وغیرہ کھلوانے جیسے معاملات میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔‘‘ ملک کے مطابق یہ قانون ایسے افراد کو ملک کے مرد اور خواتین شہریوں کے برابر لے آنے کا سبب بنا۔

انسانی حقوق کی کارکن اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی رکن بندیا رانا کے مطابق، ''ہم خوش تھے کہ ہماری زندگیوں میں تبدیلی آئے گی، مگر اس ایکٹ سے متوقع فائدے ابھی پہنچنا شروع بھی نہیں ہوئے کہ اب ہمیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘

بندیا رانا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا، ''ہمارے پاس صرفگانے اور ڈانس کرنے کا راستہ کھلا ہوتا ہے، اور ہماری برادری پر ملک بھر میں حملے ہوتے ہیں۔ گزشتہ سات سالوں کے دوران صرف خیبر پختونخوا صوبے میں 100 سے زیادہ ٹرانس جینڈ قتل ہو چکے ہیں۔‘‘ رانا کا مزید کہنا تھا، ''ہم پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی درست مردم شماری کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمارے حقوق کے اس معاملے کو مذہب سے نہ جوڑا جائے۔‘‘

ہارون جنجوعہ (ا ب ا/ ع ت)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں