پاکستان:معاشی بے یقینی اور کریپٹو کرنسی کے استعمال میں اضافہ
29 جولائی 2018مشہور جریدے فوربز کی ایک تازہ رپورٹ میں ٹریڈنگ پلیٹ فارم ’لوکل بِٹ کوائنز‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کریپٹو کرنسی کی خریدو فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ڈیجیٹل کرنسی پر گہری نظر رکھنے والی خاتون تجزیہ کار ملینی کریمر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ اضافہ دو وجوہات کی بنیاد پر ہے، ’’ایک تو کریپٹوکرنسی کی مارکیٹ میں لوگوں کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا ہے اور دوسرا یہ پاکستان میں معاشی بے یقینی کا نتیجہ ہے۔‘‘
پاکستان میں ممکنہ طور پر آئندہ حکومت پاکستان تحریک انصاف کی ہو گی لیکن معیشت میں بہتری کے لیے ابھی تک اس جماعت نے کوئی واضح روڈ میپ عوام کے سامنے نہیں رکھا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں بہتر معاشی اصلاحات کا عندیہ دیا ہے لیکن معاشی ماہرین کے مطابق انہیں اس حوالے سے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ صورتحال میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے مزید قرض لینا پڑ سکتا ہے۔
حالیہ چند دنوں میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو ملک کے اندر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا مرکزی بینک عام شہریوں کی ڈالر تک رسائی کو مشکل بنا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈالر یا روپے جیسی کنٹرولڈ کرنسیوں کی بجائے لوگوں کا رجحان ڈی سینٹرالائزڈ ڈیجیٹل کرنسیوں کی طرف بڑھ رہا ہے، جنہیں بغیر کسی رکاوٹ کے سرحد پار بھیجا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے ان لوگوں کے لیے مزید قوانین متعارف کروائے ہیں، جو ڈالر کی صورت میں پیسہ ملک سے باہر لے جانا چاہتے ہیں۔
رواں برس کے آغاز پر ایران میں بھی لوگوں نے اپنا سرمایہ ملک سے باہر لے جانے کے لیے کریپٹو کرنسی کا ہی استعمال کیا تھا۔ اسی طرح معاشی بے یقینی کے شکار ووینزویلا اور یونان جیسے ممالک میں بھی لوگوں میں کریپٹو کرنسی خریدنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
فوربز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بینکوں کے ذریعے کریپٹو کرنسی پر پابندی کے باوجود اس میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف ’لوکل بِٹ کوائنز ٹریڈنگ پلیٹ فارم‘ پر پاکستان کے 57 افراد یا کمپنیاں بٹ کوائنز کی خریدوفروخت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں ’پاک کوائن‘ نامی ڈیجیٹل کرنسی بنانے والے ابو شاہیر کے مطابق پاکستان میں لوگ کریپٹو کرنسی کو ایک سرمایہ کاری کے طور پر دیکھ رہے ہیں لیکن مغرب کے مقابلے میں یہ رجحان سست روی کا شکار ہے کیوں کہ پاکستان میں شرح تعلیم کی کمی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق غیریقینی صورتحال کا سامنا کرنے والے معیشتیں اپنے سرمائے کو کنٹرول کرنے کے لیے مستقبل میں ملکی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروا سکتی ہیں، جیسے کہ وینزویلا نے کیا ہے۔ چند ماہ پہلے اس ملک نے’پیٹرو‘ نامی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروائی ہے۔ اسی طرح ایران بھی اس طرح کی سرکاری کرنسی متعارف کروانے کا سوچ رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں فی الحال ایسا نظر نہیں آتا کہ حکومت سرکاری ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروائے لیکن غیریقینی معاشی صورتحال لوگوں کو کریپٹو کرنسی کے استعمال پر مجبور کرے گی۔