پاکستان میں موبائل فونز کی مارکیٹ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے جبکہ روایتی اور سمارٹ فونز کی صنعتی پیداوار بھی مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ موبائل فون استعمال کرنے والے پاکستانی صارفین کی موجودہ تعداد 183 ملین سے زیادہ ہے۔
اشتہار
اپنے 220 ملین کے قریب باشندوں کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس ملک میں کروڑوں شہری غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں، مگر ٹیلی مواصلاتی رابطوں کے لیے موبائل فون دنیا کے دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی اتنا ضروری ہو چکا ہے کہ ملک کے 80 فیصد سے زائد شہریوں کے پاس اپنا کوئی نہ کوئی ذاتی موبائل فون موجود ہے۔
ترقی یافتہ مغربی دنیا میں عام شہریوں کی بہت بڑی اکثریت انفرادی سطح پر سمارٹ فونز کی مالک ہے، تاہم پاکستان میں صارفین کی بہت بڑی تعداد موجودہ ڈیجیٹل دنیا کا حصہ اس طرح ہے کہ اس کے پاس ٹیلی کمیونیکیشن رابطوں کے لیے موبائل فونز تو موجود ہیں مگر ان میں روایتی موبائل ڈیوائسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔
موبائل فون صارفین کی رجسٹرڈ تعداد 183.2 ملین
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا ہے کہ رواں برس مارچ کے مہینے تک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں موبائل فون صارفین کی رجسٹرڈ تعداد 183.2 ملین بنتی تھی جبکہ تھری جی اور فور جی سروسز استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریباﹰ 98.2 ملین تک پہنچ چکی تھی۔
ان صارفین کی اکثریت شہری علاقوں کی رہائشی ہے مگر دور دراز کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں بھی اب موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں اس وقت چار بڑی ٹیلی کوم کمپنیاں موبائل سروسز مہیا کر رہی ہیں۔ ان میں اپنے صارفین کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست کمپنی جاز ہے۔ پی ٹی اے کے مطابق جاز کے فور جی صارفین کی تعداد اس سال مارچ میں 28.68 ملین ہو چکی تھی، جس کے بعد زونگ موبائل سروس کا نمبر آتا ہے۔ اس کے بعد ٹیلی نار اور چوتھے نمبر پر یو فون کی موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس آتی ہے۔
پاکستان میں موبائل فونز کی پیداواری صنعت
پاکستان میں گزشتہ برسوں میں جس طرح موبائل فون کے استعمال کی منڈی نے ترقی کی ہے، اس کے پیش نظر ملک میں سمارٹ فونز سمیت موبائل فونز کی پیداواری صنعت نے بھی بے تحاشا ترقی کی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں موبائل فونز تیار کرنے والے کئی جدید صنعتی یونٹ کام کر رہے ہیں، جہاں ہر سال کروڑوں موبائل ڈیوائسز تیار کی جاتی ہیں۔
مقامی سطح پر موبائل فونز کی پیداواری صنعت نے ایسے فونز کی درآمد کی شرح کو بھی اب پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس سال جنوری سے جولائی تک کے عرصے میں پاکستان میں موبائل فون تیار کرنے والے صنعتی اداروں نے 12.27 ملین موبائل فونز تیار کیے جبکہ اسی مدت میں درآمد کردہ موبائل ڈیوائسز کی تعداد 2.09 ملین رہی۔
یہ رجحان پی ٹی اے کے موبائل ڈیوائس مینوفیکچرنگ کے اجازت ناموں سے متعلق ریگولیٹری نظام کے بدولت بھی ممکن ہوا۔ اس نظام کے متعارف کرائے جانے کے بعد پہلے سات ماہ کے دوران جو 12 ملین سے زائد موبائل فون تیار ہوئے، ان میں فور جی رابطوں کے لیے استعمال ہونے والے 4.8 ملین سے زائد سمارٹ فونز بھی شامل تھے۔
اشتہار
پیداواری اجازت ناموں کی حامل کمپنیاں
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ خرم علی مہران نے ڈوئچے ویلے کوبتایا کہ حکومت کی جانب سے مینوفیکچررز کے لیے پاکستان میں پیداواری یونٹوں کے قیام کے حوالے سے ایک جامع موبائل مینوفیچکرنگ پالیسی متعارف کرائی گئی۔ اس پالیسی کی روشنی میں پی ٹی اے نے 28 جنوری 2021ء کو موبائل ڈیوائس مینوفیکچرنگ ریگولیشنز جاری کیے۔ ان ضابطوں کے تحت اب تک 26 کمپنیوں کو پاکستان میں موبائل فونز کی تیاری کے اجازت نامے جاری کیے جا چکے ہیں۔ ان کمپنیوں میں سامسنگ، نوکیا، اوپو، انفینکس، ٹیکنواور کیو موبائل بھی شامل ہیں۔
خرم علی مہران کے مطابق اب پاکستان میں موبائل فون مینوفیکچرنگ کا مستقبل بہت روشن ہے کیونکہ حکومتی پالیسیوں اور ڈیوائس آئیڈینٹی فیکیشن رجسٹریشن اینڈ بلاکنگ سسٹم (ڈی آئی آر بی ایس) کے کامیاب نفاذ کے بعد ملک میں مقامی سطح پر صنعتی ماحول سازگار ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پیش رفت سے پاکستان میں موبائل فون کی پیداوار کے شعبے پر نہ صرف مثبت اثرات مرتب ہوئے بلکہ غیر قانونی منڈی کا خاتمہ بھی ہوا۔ مزید یہ کہ تجارتی اداروں کو برابر مواقع میسر آئے اور ہر قسم کی ڈیوائسز کی درآمد کے لیے یکساں قانونی مواقع کی موجودگی سے صارفین کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔
جدید ٹیکنالوجی مستقبل قریب میں ہماری دنیا کیسے بدل دے گی؟
جرمن شہر ہینوور میں جدید ٹیکنالوجی کا سالانہ میلہ سیبِٹ 2017 جاری ہے۔ رواں برس اس بڑی بین الاقوامی نمائش میں کیا نئی چیزیں متعارف کرائی جا رہیں ہیں اور وہ ہماری زندگیوں کو کیسے بدل کر رکھ دیں گی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Gentsch
گاڑی جو آپ کی عادات سمجھتی ہے
اس سال سیبِٹ میں مشہور کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو اور ٹیکنالوجی کی دنیا کے نامور ادارے آئی بی ایم ایک ساتھ دکھائی دیے۔ دونوں ادارے ایک ایسی اسمارٹ کار بنانے میں مصروف ہیں جو اپنے مالک کی عادات اور مزاج سے آگاہ ہو گی۔ آپ کی آج مصروفیات کیا ہیں؟ مستقبل کی کار نہ صرف ان باتوں سے واقف ہو گی بلکہ آپ کو مشورے بھی دی گی۔ یوں سمجھیے اسمارٹ کار اب آپ کی مشیر بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
گھر، شہر، ملک، دنیا - سب ایک دوسرے سے منسلک
سن 2020 تک پچاس ارب سے زائد ڈیوائسز انٹرنیٹ سے منسلک ہوں گی۔ چند برس بعد کی دنیا میں آپ کا موبائل اور کار ہی اسمارٹ نہیں ہوں گے بلکہ سارا گھر اور شہر بھی اسمارٹ ہوں گے۔ جیسے آج کی ’اسمارٹ واچ‘ ہماری نبض اور دل کی دھڑکن پر نظر رکھتی ہے آئندہ اسی طرح پورا گھر، بلکہ پورا شہر بھی آپ کی زندگیاں آسان بنانے میں مددگار ہوں گے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
جاپان: اس سال کا پارٹنر ملک
سیبِٹ 2017 نمائش میں جاپان کو پارٹنر ملک کے طور پر شریک ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی اختراعات کے لیے جاپان ہر سال اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اس برس سیبِٹ میں جاپانی ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ سینکڑوں کمپنیاں شریک ہیں اور نمائش کے افتتاح میں جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے نے خاص طور پر شرکت کی تھی۔ جاپانی روبوٹ ٹیکنالوجی اس مرتبہ نمایاں رہی۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
دنیا بھر سے ہزاروں کمپنیوں کی شرکت، پاکستان ندارد
اس برس کی نمائش میں تین ہزار سے زائد کمپنیاں شریک ہیں۔ موبائل ٹیکنالوجی سے لے کر دفاتر کی ڈیجیٹلائزیشن، صنعتوں اور صحت کے شعبوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال تک مختلف النوع نئی ایجادات دکھائی جا رہی ہیں۔ بھارت سے قریب دو سو اور بنگلہ دیش سے بھی چھیالیس کمپنیاں شرکت کر رہی ہیں تاہم پاکستان سے اس مرتبہ بھی کسی کمپنی نے شرکت نہیں کی۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
تھری ڈی پرنٹر سے انسانی اعضا کی پرنٹنگ
مستقبل قریب میں جدید ٹیکنالوجی انسانی صحت میں کیسے مدد گار ثابت ہو گی، اس کی ایک بھرپور جھلک بھی اس نمائش میں دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے انسانی اعضا اور انسانی ٹیشوز کی پرنٹنگ۔ اس سال صحت اور ٹیکنالوجی کے موضوع پر کئی کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے جن میں ماہرین صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر اب تک کی گئی تحقیق پیش کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
حقیقی اور ورچوئل کا مٹتا ہوا فرق
مصنوعی ذہانت اور ورچوئل ریئیلیٹی نیا موضوع نہیں۔ لیکن اس مرتبہ کی نمائش میں یوں لگا جیسے آئندہ کے چند برسوں میں حقیقی اور مرئی کا فرق بھی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ پہلے ’ورچوئل ریئیلیٹی‘ عینکوں کے ذریعے ایک غیر حقیقی دنیا کی سفر کیا جا سکتا تھا لیکن اب کی بار تو ایسی ایجادات دیکھی گئیں جن کے ذریعے صرف آنکھیں ہی نہیں، بلکہ پورا انسانی جسم ایک غیر حقیقی دنیا میں جا کر محسوسات کا احاطہ کر سکے گا۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
ڈیجیٹل دنیا کتنی محفوظ ہے؟
جب انسان سے منسلک قریب ہر ڈیوائس انسانی موجودگی کے بارے میں سب کچھ جانتی ہو تو پھر یہ خدشہ بھی ہمہ وقت رہتا ہے کہ ’بِگ بردر‘ بھی ہماری حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس سال کے سیبِٹ میں ’ڈیجیٹل سکیورٹی‘ کا موضوع بھی نمایاں رہا۔ کئی کمپنیوں نے ایسے آلات کی نمائش کی جو ہمارے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ایڈورڈ سنوڈن نے بھی اس بارے میں ویڈیو کانفرنس کال کے ذریعے خطاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Gentsch
7 تصاویر1 | 7
پاکستانی لیبر مارکیٹ کے لیے مواقع
پی ٹی اے کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ خرم علی مہران نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب متحدہ عرب امارات اور وسطی ایشیائی ممالک کی منڈیوں میں فروخت ہونے والے چینی برانڈ کے موبائل فونز پاکستان میں بھی تیار ہوں گے، جیسےکہ OPPO یا VIVO کمپنیوں کی موبائل ڈیوائسز۔
انہوں نے کہا، ''چونکہ پاکستان میں لیبر سستی ہے، اس لیے پیداواری لاگت بھی کم رہے گی جو کہ پیداواری اداروں کے لیے ایک پرکشش پہلو ہو گا۔ یوں اس شعبے میں پاکستان کی برآمدات بڑھیں گی اور اس سیکٹر میں ملک کا مجموعی درآمدی بل بھی کم ہو جائے گا۔‘‘
تاجر اور صارفین کیا کہتے ہیں؟
اسلام آباد کے رہائشی اور موبائل فونز کا کاروبار کرنے والے سجاد احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب زیادہ تر پاکستانی صارفین مقامی طور پر تیار کردہ موبائل فونز خرید رہے ہیں، جن میں انفینکس اور ٹیکنو سرفہرست ہیں۔ سجاد علی کے مطابق ایسے فونز کی قیمتیں 15 ہزار روپے سے لے کر 30 ہزار روپے تک ہوتی ہیں اور ایسی ڈیوائسز کی مانگ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ بہت سے صارفین بہت مہنگے فونز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا، ''کچھ عرصہ پہلے تک سب سے زیادہ سیل اور مانگ اوپو اور ویوو برانڈ کے موبائل فونز کی ہوتی تھی مگر اب صورت حال بدل رہی ہے۔‘‘
آئی فون سے آئی فون 12 تک کا سفر
2007ء ميں جب پہلا آئی فون لانچ کيا گيا تو کسی کو يہ اندازہ نہ تھا کہ آئی فون اسمارٹ فون انڈسٹری اور سوشل ميڈيا کی بدلتی ہوئی دنيا ميں کس قدر کامياب ثابت ہو گا۔ آئی فون کی ابتداء سے آئی فون بارہ تک کے سفر کی جھلکياں۔
تصویر: Apple Inc./Brooks Kraft/AFP
ابتدائی ’آئی فون‘ ايک گيم چينجر
پہلا آئی فون انتيس جون سن 2007 کو متعارف کرايا گيا تھا۔ ابتدائی ماڈل کا نام ’آئی فون‘ تھا جو ايپل کے اسمارٹ فون کی پہچان بن گيا۔ يہ اسمارٹ فون دو ميگا پکسل کے کيمرے، ٹچ اسکرين اور ديگر کئی صلاحيتوں سے ليس تھا۔ يہ فون کئی اعتبار سے اسمارٹ فونز کی مارکيٹ ميں ’انقلابی‘ ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Apple
آئی فون تھری جی
ايپل نے گيارہ جولائی سن 2008 کو آئی فون تھری جی متعارف کرايا۔ اس کی اہم ترین خاصيت ’تھری جی‘ انٹرنيٹ ٹيکنالوجی سے ہم آہنگی تھی، جو اس وقت ايک بڑی بات تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Mabanglo
’آئی فون تھری جی ايس‘
19 جون سن 2009 کو ’آئی فون تھری جی ايس‘ متعارف کرايا گيا۔ اس فون ميں تين ميگا پکسل کا کيمرہ نصب تھا اور ويڈيو ريزوليوشن 480p تھی۔ يہ بنيادی طور پر گزشتہ ماڈل کا ايک زيادہ طاقتور ورژن تھا۔
تصویر: imago
’آئی فون فور‘
لگ بھگ ايک سال بعد اکيس جون سن 2010 کو ’آئی فون فور‘ متعارف کرايا گيا۔ اس فون ميں پانچ ميگا پکسل کا کيمرا نصب تھا اور يہ 720p ريزوليوشن تک کی ويڈيو بنا سکتا تھا۔ يہ ايچ ڈی يا ہائی ڈيفينيشن ويڈيو ريکارڈ کرنے والا اولين فون کیمرا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
’آئی فون فور ايس‘
چودہ اکتوبر سن 2011 کو ايپل نے آئی فون فور ايس متعارف کرايا، جو سابقہ ماڈل کا ايک زيادہ ايڈوانسڈ ورژن تھا۔ اس کے کيمرے کی صلاحيت آٹھ ميگا پکسل اور ويڈيو کی فل ہائی ڈيفينيشن 1080p تھی۔
تصویر: Getty Images/J. Sullivan
’آئی فون فائيو‘
اکيس ستمبر سن 2012 کو ايپل نے آئی فون فائيو متعارف کرايا۔ اس فون ميں بيک کيمرا آٹھ ميگا پکسل کا اور فرنٹ کيمرا 1.2 ميگا پکسل کا تھا جب کہ يہ ہائی ڈيفينيشن 1080p ويڈيو بنانے کی صلاحيت کا حامل بھی تھا۔
تصویر: Getty Images/A. Burton
’فائيو سی‘ اور ’فائيو ايس‘
ايپل نے بيس ستمبر سن 2013 کو ’آئی فون فائيو سی‘ اور ’آئی فون فائيو ايس‘ متعارف کرائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Nogi
’آئی فون سِکس اور سِکس پلس‘
سن 2014 ميں آئی فون سکس اور سکس پلس بھی متعارف کرا ديے گئے۔ يہ دونوں فون انيس ستمبر کو متعارف کرائے گئے اور اب تک دنيا بھر ميں 169.22 ملين آئی فون سکس اور سکس پلس فروخت کيے جا چکے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/J. Arriens
’سِکس ايس اور سِکس ايس پلس‘
پھر 25 ستمبر سن 2015 کو ايپل نے آئی فون سِکس کے دو نئے ورژن سِکس ايس اور سِکس ايس پلس متعارف کرائے۔ يہ ماڈل کافی کامياب رہے اور مجموعی طور پر 231.22 ملين سِکس ايس اور سِکس ايس پلس فروخت ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Edelson
آئی فون سيون کی آمد
مارکيٹ ميں بڑھتی ہوئی مانگ کو ديکھتے ہوئے ايپل نے اپنی حکمت عملی بدلی اور مختلف قسم کے صارفين کے ليے مختلف ماڈل متعارف کرائے۔ سن 2016 ميں آئی فون ايس ای، آئی فون سيون اور سيون پلس متعارف کرائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AAP/J. Carrett
آئی فون ايٹ اور ’سِری‘ کی آمد
اسی طرح سن 2017 ميں بھی تين ماڈل لانچ کيے گئے۔ آئی فون ايکس، آئی فون ايٹ اور ايٹ پلس۔ ان فونز ميں ايپل نے سری کو بھی متعارف کرايا، جو وائس کمانڈ کے ذريعے مختلف فنکشنز مکمل کرنے والا ايپل کا خصوصی وائس اسسٹنٹ ہے۔
تصویر: apple.com
آئی فون ايکس ايس، ميکس اور ايکس آر
دو برس قبل ايپل نے پھر تين ماڈل متعارف کرائے، آئی فون ايکس ايس، ميکس اور ايکس آر۔ يہ تينوں ہی ماڈل مختلف صارفين کو ذہن ميں رکھتے ہوئے لانچ کيے گئے تھے۔ ان کی فروخت کا حجم 217.73 ملين رہا۔
تصویر: Reuters/S. Lam
آئی فون اليون، آئی فون پرو اور آئی فون ميکس
سن 2019 ميں ايپل نے آئی فون اليون، آئی فون پرو اور آئی فون ميکس لانچ کيے۔ اب چونکہ اسمارٹ فون پر اعلٰی کوالٹی کی ويڈيوز بننے لگی ہيں اور يو ٹيوب، ٹک ٹاک اور فيس بک جيسے کسی پليٹ فارمز پر مواد کا انبار ہے، ايپل نے مختلف صلاحيت اور خصوصيات والے فون بنائے، جو کہ صارف کے ضرورت کے مطابق تھے۔
تيرہ اکتوبر کو آئی فون نے آئی فون 12 لانچ کيا۔ فائيو جی ٹيکنالوجی سے ليس يہ فون انتہائی اعلٰی معيار کی سہوليات سے آراستہ ہے۔ اس کے تين مختلف ورژن بھی عنقريب دستياب ہوں گے، آئی فون ٹوئيلوو مِنی، پرو اور تھری ڈی۔
تصویر: Apple Inc./Brooks Kraft/AFP
14 تصاویر1 | 14
دوسری طرف جاز نامی ٹیلی کوم کمپنی کے اسلام آباد کے رہائشی ایک فور جی صارف صادق علی نے ملک میں موبائل فون اور موبائل انٹرنیٹ سروسز کے معیار پر تنقید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں موبائل ٹیلی کوم سروسز متعلقہ کمپنیوں کی طرف سے وعدہ کردہ رفتار اور معیار کی حامل ہرگز نہیں ہوتیں۔
انہوں نے کہا، ''یہ سراسر دھوکا ہے کیونکہ زیادہ تر فور جی اور تھری جی کے نام پر صرف ٹو جی سروسز مہیا کی جا رہی ہوتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ فور جی کنکشن کے ساتھ موبائل پر ڈاؤن لوڈ اسپیڈ بہت تیز ہو، لیکن ایسا ہوتا کبھی نہیں۔‘‘
صادق علی نے بتایا کہ انہیں گزشتہ ماہ کراچی سے بلوچستان کے ایک اندرونی علاقے تک جانا پڑا، تو ساڑھے چار سو میل کے پورے راستے میں 90 فیصد فاصلے تک تو جاز کا نیٹ ورک ہی کام نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا، ''اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں دوران سفر کسی سے رابطہ تو تقریباﹰ کر ہی نہ سکا اور نہ ہی زیادہ تر مجھے جی پی ایس کے ذریعے اپنی لوکیشن کا اندازہ ہو سکا۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں صارفین کا ایسا کوئی کوئی نیٹ ورک بھی نہیں، جو ان ٹیلی کوم کمپنیوں اور ریگولیڑی اتھارٹی پر دباؤ ڈال سکے۔‘‘
SMS کی 25 ویں سالگرہ
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPI
ایس ایم ایس کی دنیا
تین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann
’’میری کرسمس‘‘
25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatov
160 کریکٹرز کی حد
ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW
ٹیلیفون کمپنیوں کی چاندی
1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
اسمارٹ فونز
اسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomua
اعتماد کا رابطہ
ایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔