اسلام آباد کے چڑيا گھر ميں تنہا زندگی گزارنے والے ہاتھی کی مشکلات اب ختم ہونے کو ہيں۔ کاوان کے ليے کمبوڈيا ميں ايک پناہ گاہ تلاش کر لی گئی ہے، جہاں وہ اپنی بقيہ زندگی آزاد اور ديگر ہاتھيوں کے ہمراہ گزار سکے گا۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے مرغزار چڑيا گھر کے ہاتھی کاوان کو بالآخر گھر مل گيا ہے۔ جانوروں کے تحفظ کے ليے سرگرم بين الاقوامی ادارے 'فور پوز‘ نے پير 12 اکتوبر کو اعلان کيا ہے کہ کاوان کو نومبر کے اختتام تک کمبوڈيا ميں ہاتھيوں کی ايک پناہ گاہ بھيج ديا جائے گا۔
ايشيائی ہاتھی کاوان صرف ایک برس کا تھا جب سن 1985 ميں اسے سری لنکا سے پاکستان لايا گيا۔ اس کی ساتھی، جس کا نام سہيلی تھا، سن 2012 ميں چل بسی۔ کاوان مرغزار چڑيا گھر ميں ايک چھوٹے سے حصے ميں کئی دہائيوں سے وقت گزار رہا ہے۔ اکثر اوقات اسے زنجيروں سے جکڑ کر رکھا جاتا ہے۔ يہ ہاتھی کافی مشکل حالات ميں اور گزشتہ آٹھ برس سے تنہائی ميں گزر بسر کر رہا تھا۔
کاوان کی حالت زار عالمی سطح پر اس وقت اجاگر ہوئی جب امريکی گلوکارہ اور جانوروں کے حقوق کے ليے سرگرم شيئر نے سن 2016 ميں کاوان کی منتقلی کے ليے ايک آن لائن پٹيشن شروع کی۔ اس پٹيشن پر تقريباً دو لاکھ افراد نے دستخط بھی کر ديے تھے۔ اسی وقت سے کاوان کے ليے کسی مناسب ٹھکانے کی تلاش جاری تھی۔
کمبوڈيا ميں کاوان کو جس پناہ گاہ ميں بھيجا جا رہا ہے، اس ميں 80 ہاتھی رہتے ہيں۔ ہاتھيوں کی يہ پناہ گاہ ماہرين اور سہوليات سے ليس ہے اور امکان ہے کہ وہاں کاوان کی باقی زندگی آرام سے گزرے گی۔ ويانا ميں قائم 'فور پوز‘ کے ماہرين نے فضائی سفر کے ليے کاوان کی نفسياتی اور جسمانی صحت کا بھی جائزہ ليا۔ کاوان کو اس کے اگلے گھر تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی اسی ادارے کو سونپی گئی ہے۔ ہوائی سفر کے ليے کاوان کو تيار کيا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے ليے پانچ ٹن وزنی اور تين ميٹر اونچا ايک خصوصی پنجرہ تيار کيا جا رہا ہے، جس ميں کاوان کو طبی معائنوں کے بعڈ کمبوڈيا پہنچايا جائے گا۔
جانوروں کے ديگر کئی ڈاکٹروں سميت عامر خليل اور فرانک گورٹز نے ستمبر ميں کاوان کا تفصيلی معائنہ بھی کيا۔ ڈاکٹر خليل فضائی سفر کے ليے ان دنوں کاوان کو تيار بھی کر رہے ہيں۔
جانوروں کی سننے کی غیرمعمولی صلاحتیں
ارتقا کے سفر میں انسانوں نے اپنی سماعت کی حسیات کھو دیں۔ ہم ہاتھیوں کی طرح نچلے تعدد کی آواز نہیں سن سکتے اور چمگادڑوں کی طرح کی اونچی فریکوئنسی کی سماعت سے عاری ہوتے ہیں مگر ہم نے اپنی سماعت کو بہتر بنانا ضرور سیکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
خرگوش اور کانوں کا گھماؤ
خرگوش اپنے کانوں کو 270 درجے تک گھما کر سننے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کانوں کی حرکت اسے شکار بننے سے بچاتی ہے، مگر خرگوش کے کان رویے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کھڑے کان بتاتے ہیں کہ وہ توجہ سے سن رہے ہیں اور جب ایک کان کھڑا ہو اور ایک بیٹھا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ خرگوش توجہ دیے بغیر سن رہا ہے۔ دونوں کان پشت پر جڑی حالت میں گرے ہوں، تو سکون کی علامت ہے۔ اسی حالت میں علیحدہ کان خوف کا اشارہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
بلی اور کتا نہایت متوجہ ہیں
کتے انسان سے زیادہ بلند تعدد کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ اسی لیے آپ کا کتا اس وقت بھی ردعمل دکھا سکتا ہے، جب آپ کو وہاں کچھ نظر نہ آئے۔ کتے اپنے مالک اور اجنبیوں کے قدموں کی چاپ میں فرق تک کر سکتے ہیں۔ بلیاں سماعت میں اس سے بھی زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ کتوں کے پاس کانوں کے 18 پٹھے ہوتے ہیں جب کہ بلیوں میں یہ تعداد 30 ہے۔ بلیاں اپنے کانوں کو 180 درجے گھما بھی سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Faber
چمگادڑوں کا سننے کے لیے الٹراسانک موجوں کا استعمال
چمگادڑ گمک کے ذریعے رات کے دوران پرواز کا راستہ طے کرتی ہیں۔ یہ اپنے منہ سے الٹراسونک یا بالائے صوت موجیں خارج کرتی ہیں، جو پلٹ کر ان تک آتی ہیں۔ اس ذریعے سے چمگادڑ آواز کی موجوں سے کسی شے کے حجم اور مقام کا تعین کرتی ہیں اور گھپ اندھیرے میں بھی خوراک تلاش کر لیتی ہیں۔ چمگادڑوں کے پاس کانوں کے 20 پٹھے ہوتے ہیں، جن کے ذریعے یہ گمک کو سننے کے لیے اپنے کانوں کی جہت تبدیل کر لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Mary Evans Picture Library/J. Daniel
عالم حیوانات کا بہترین سامع مگر کان نہیں ہیں
عالم حیوانات میں سب سے بہترین سماعت ویکس موتھ ہے، جسے ارتقا نے چمگادڑوں سے بچنا سکھا دیا ہے۔ ان کے کان نہیں ہیں، مگر ان کی سننے کی صلاحیت انتہائی حساس ہے۔ یہ انسانوں کے مقابلے میں ایک سو پچاس گنا بہتر سن سکتے ہیں جب کہ چمگادڑوں کے مقابلے میں 100 ہرٹز زیادہ تعدد کی آوازیں بھی سن سکتے ہیں۔
بھنورے، جھینگر اور کیڑے اپنے شکاریوں کی جانچ کے لیے الٹراسونک موجوں کو سماعت کرتے ہیں۔ شکاریوں سے فاصلہ بنانے کے لیے یہ آڑا ترچھا یا دائروں میں اڑنے کا ہنر استعمال کرتے ہیں۔ بعض جھینگر اور بھنورے مخصوص آواز پیدا کر کے اپنے شکاری کو ڈرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Schultz
وہیل، چلتی پھرتی آبدوزیں
آب دوزوں کے سفر کے لیے وہی تکنیک استعمال کی جاتی ہے، جو چمگادڑ یا وہیل مچھلیاں گھپ اندھیرے میں سفر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اندھیرے میں وہیل مچھلیاں آواز کی موجیں پیدا کر کے اور گمک سن کے اپنی خوراک بھی تلاش کرتی ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہیل مچھلیاں آواز کے ذریعے اپنے آس پاس کے ماحول کا سہہ جہتی خاکہ جان لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Poelzer
ڈولفن جبڑوں سے سنتی ہیں
ڈولفن کے کان ہوتے ہیں، مگر وہ سمندر میں سفر کے لیے چمگادڑوں کی طرز کا نظام استعمال کرتی ہیں۔ ان کی جبیں سے صوتی لہریں نکلتی ہیں جب کہ پلٹ کر آنے والی ان لہروں کو ڈولفن کے دانت اور جبڑے وصول کرتے ہیں۔ سننے کے لیے کبھی کبھی کان درکار نہیں ہوتے۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Peolzer
ہاتھی بادلوں کی گڑگڑاہٹ محسوس کر سکتے ہیں
اپنے بڑے بڑے کانوں کے ذریعے ہاتھی بارش سے قبل جمع ہونے والے بادلوں کی آواز تک محسوس کر لیتے ہیں۔ ہاتھی انفرا صوتی موجوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ اپنے پیروں کی حرکت کی وجہ سے زمین پر پیدا ہونے والی ارتعاش تک کو محسوس کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. Reichelt
الو جیسے فطرت کا نگران کیمرہ
الوؤں کے پاس فقط رات میں دیکھنے یا اپنے سر کو تین سو ساٹھ درجے گھمانے ہی کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ ان کی سماعت بھی غیرمعمولی ہوتی ہے۔ ان کے کان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اڑتے ہوئے یہ ایک کان سے اوپر سے آنے والے صوتی موجیں محسوس کر سکتے ہیں اور ایک کان سے نیچے سے آتی آوازیں۔ اس پر ان کی رات میں دیکھ لینے کی صلاحیت کا مطلب ہے کہ ان کا شکار بچ نہیں سکتا۔
تصویر: DW
نابینا افراد چمگادڑوں کی طرح سننے کی مشق کر سکتے ہیں
بعض نابینا افراد گمک کو محسوس کر کے اپنے ماحول کو جانچ سکتے ہیں۔ بعض افراد اپنے منہ سے آواز نکال کر اس کی بازگشت سن لیتے ہیں جب کہ بعض دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فقط گمک سن کر اپنے ماحول کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں۔