پاکستان ميں ’ٹیلی اسکول‘ کا منصوبہ، ماہرین کا خیر مقدم
عبدالستار، اسلام آباد
2 اپریل 2020
پاکستان میں ماہرین تعلیم نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کا مشروط خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت پاکستان ٹيلی وژن نيٹ ورک کی مدد سے ٹیلی اسکول کھولنے کا اعلان کیا گيا ہے۔
اشتہار
پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے مطابق وفاقی وزارت برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تعلیم کے نقصان کے ازالے کے ليے ٹیلی اسکول کا افتتاح کرنے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں پی ٹی وی کے ساتھ ایک مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کيے گئے ہیں۔ معاہدے کے تحت پی ٹی وی تعلیمی اداروں کی چھٹیوں کے دوران ٹیلی اسکول کے نام سے ایک چینل شروع کرے گا جو صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک تعلیمی مواد نشر کرے گا۔ اس پروگرام سے جونیئر اور سنئیر کلاسسز کے طلبہ مستفید ہو سکيں گے۔ وزارت تعلیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ میٹرک تک کے مواد کو تیار کر لیا گیا ہے اور کچھ دنوں میں یہ مواد پی ٹی وی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ صبح میں جونیئر کلاسز کے طلبا کے ليے سیشن ہوں گے اور بعد کے اوقات میں سینئر طلبا کے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود نے انگریزی روزنامہ ڈان کو بتایا کہ یہ اسکول آئندہ دس دن میں شروع ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ کچھ عرصے پہلے وزارت تعلیم کے حوالے سے یہ خبریں آئی تھیں کہ وہ اقبالیات اور پاکستانیت جیسے مضامین شروع کرنے جاری ہے، جس پر ناقدین نے سخت تنقید کی تھی اور اس کو پروپگينڈا پھیلانے کا ایک ہتھیار قرار دیا تھا۔ اسی ليے کئی ماہرین تعلیم نے تازہ پيش رفت کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے۔
لاہور کے مشہور تعلمی ادارے لمز سے وابستہ اکیڈمک ڈاکٹر تیمور رحمان کا کہنا ہے کہ اگر اس اسکول کو صرف پروپیگنڈے کے ليے استعمال نہیں کیا جاتا ہے، تو یہ بہت اچھا اقدام ہے۔ ''ریاستیں پروپگينڈا کرتی ہیں لیکن اس چینل کو صرف اس ہی مقصد کے ليے نہیں استعمال کرنا چاہیے۔ اس کا مواد بین الاقوامی معیار کا ہونا چاہیے، جس کی تیاری میں معروف اکیڈمکس نے حصہ لیا ہو۔ سائنس اور سوشل سائنس کو جدید انداز میں پڑھایا جانا چاہیے اور یہ ورچوئل یونیورسٹی کی طرز کا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
تیمور رحمان کا کہنا تھا کہ کسی بھی آن لائن یا ٹی وی پر آنے والے پروگرام کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ طالب علموں کے علاوہ اسے عام لوگ بھی دیکھیں اور سیکھیں۔ ''مثال کے طور پر میں نے پی ٹی وی پر اے ہسٹری آف فلاسفی پر لیکچر دیے، جسے کمرشل بھی ملے اور عام لوگوں نے بھی اسے دیکھا۔ کسی دور میں معروف دانشور منصور سعید صاحب نے کاسموس پر اردو میں دستاويزی فلم بنائی، جوپی ٹی وی پر چلی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔ اسی طرح بی بی سی نے لندن یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کئی تعلیمی پروگرامز بنائے، جو بہت کامیاب ہوئے۔‘‘
پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے ہو گیا ہے۔ اسی ليےکئی ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ اس مسئلے پر صوبائی حکومتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ کراچی یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈی سینیٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے یقیناً طلبا کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ ’’لیکن کئی اہم سوالات جواب طلب ہيں۔ مثلا یہ کہ مواد کس تعلیمی بورڈ کا ہوگا۔ آپ کے ہاں آغا خان بورڈ، وفاقی بورڈ اور صوبائی بورڈز موجود ہیں۔ تعلیم اب صوبوں کے پاس ہے۔ اگر آپ ان سے تعاون نہیں کریں گے تو اس کا فائدہ کم ہوگا لیکن اگر تعاون کریں گے تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں طلباء اوپن یونیورسٹی کے پروگرامز دیکھتے ہیں اور پی ٹی وی کی پہنچ ملک کے کونے کونے میں ہے۔‘‘
اسکول کے پہلے دن جرمن اپنے بچوں کو ’کاغذی کون‘ کیوں دیتے ہیں
ایلیمنٹری اسکول کا آغاز جرمنی میں کسی فرد کی زندگی کا اہم دن تصور کیا جاتا ہے، بالکل گریجویشن یا شادی کی طرح۔ اس دن کے لیے والدین خاصے پیسے خرچ کر کے تحائف خریدتے ہیں، مگر ایک چیز لازم ہے، ’کاغذی کون‘۔
تصویر: imago/Kickner
کون تحائف سے بھری ہوئی
اسکول کے پہلے دن کو جرمن زبان میں ’شُول ٹؤٹے‘ یا ’اسکول کا تھیلا‘ یا ’اسکول کون‘ کہلاتا ہے۔ اس دن کے بعد کسی بچے نے اگلے بارہ یا تیرہ برس تک روز اسکول جانا ہوتا ہے، اسی لیے اس کا آغاز ’میٹھے انداز‘ سے کیا جاتا ہے۔ جرمنی میں بچے کو اسکول کے پہلے دن ٹافیاں اور تحائف دینے کی رسم انیسویں صدی سے جاری ہے۔
تصویر: imago/Kickner
نئے دور کا آغاز
اگست یا سمتبر میں اسکول کے آغاز کے وقت جرمنی میں زیادہ تر بچوں کی عمر چھ برس ہوتی ہے، تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس جرمن صوبے میں رہتے ہیں۔ ان بچوں میں سے اکثریت ایسی ہوتی ہے، جو پہلے ہی ڈے کیئر یا پری اسکول دیکھ چکے ہوتے ہیں، تاہم یہ مقامات باقاعدہ تعیلمی مراکز نہیں ہوتے۔ اسکول کی پہلی جماعت کسی بچے کے لیے ایک نئی دنیا ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
درست بستہ
اسکول کے پہلے دن سے قبل والدین ان پہلی جماعت کے بچوں کے لیے پشتی بستہ، جسے جرمن زبان میں ’شول رانسین‘ کہا جاتا ہے، خریدتے ہیں۔ یہ عموما مربع شکل کے ہوتے ہیں، تاکہ گھر سے دیا جانے والا کھانا دب نا جائے اور اندر موجود کاغذ ٹیڑھے میڑھے نہ ہو۔ بعد میں اسکول جانے والوں کے لیے شاید بستے سے زیادہ جینز کا برینڈ اہم ہو، مگر پہلی جماعت کے بچے کے مسائل مختلف ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسکول کے لیے ضروری اشیاء
بستہ خریدے کے بعد والدین کو بچوں کے لیے پین، پینسلیں، اسکیل اور فولڈر خریدنا ہوتے ہیں۔ جرمنی میں کم عمر بچوں کو اسکول میں دوپہر کا کھانا نہیں ملتا بلکہ وہاں صبح ڈھلنے پر اسنیکس وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں، بعد میں وہ گھر یا ڈے کیئر جا کر تاخیر سے ظہرانہ کھاتے ہیں۔ والدین بچوں کو مختلف ڈبوں میں ’پاؤزن بروٹ‘ یا ’وقفے کی روٹی‘ دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
یہ دن یادگار ہو گا
دنیا بھر ہی میں اسکول کے پہلے دن کے موقع پر بچوں کی تصاویر لی جاتی ہیں۔ جرمنی میں روایت یہ ہے کہ یہ تصویر بچے کے ساتھ ’شول ٹوئٹے‘ یا ’تحائف والی کون‘ کو کھولنے سے قبل کی لی جاتی ہے۔ اس کون پر لکھا ہوتا ہے، ’میرا اسکول کا پہلا دن‘۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Hirschberger
دعا کے ساتھ رخصت
جرمنی میں اسکول کے پہلے دن پڑھانا شروع نہیں کر دیا جاتا، بلکہ والدین، رشتہ دار، نانی نانا اور دادی دادا سبھی کو اسکول آنے کی دعوت دی جاتی ہے، جہاں بچوں کو خصوصی دعاؤں کے ساتھ تعلیم کے اس طویل سفر پر روانہ کیا جاتا ہے۔ بعض اسکول میں اس موقع پر کثیرالمذہبی دعائیہ تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تجربہ کاروں سے پوچھ لیں
اسکول کے پہلے دن کی تقریب میں بڑے بچے اور اساتذہ مختلف پرفارمنسز اور دیگر وضاحتوں کے ساتھ نئے آنے والوں کو یہ بتاتے ہیں کہ اسکول میں کیا کچھ کرنا ہے۔ بعض اسکولوں میں پہلی جماعت کے بچوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ تیسری یا چوتھی جماعت والے کسی بچے کو دوست بنائیں اور وہ بڑا بچہ پھر اپنے چھوٹے ساتھی کے ساتھ اپنا تجربہ بانٹتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
اسے اپنا گھر ہی سمجھیے
اسکول کے پہلے دن ان بچوں کو ان کی جماعت کا کمرہ دکھایا جاتا ہے اور نئے جماعتوں کے باہر نئے بچوں کے لیے خوش آمدیدی کلمات لکھے ہوتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/G. Kirchner
اسکول کا دوسرا دن
اب جشن ختم ہو چکا ہے، کیک کھایا جا چکا ہے، تحائف کی کون کھل چکی ہے، پہلا دن گزر چکا ہے۔ دوسرے دن بچے اسکول پہنچتے ہیں، تو ان کے سامنے پہلا سبق منتظر ہوتا ہے۔ جرمنی میں ایلیمنٹری اسکول پہلی سے چوتھی جماعت تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد بچے سیکنڈری اسکول کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔ وہ کس اسکول میں جائیں گے؟ اس کا دارومدار ان کی تعلیمی قابلیت پر ہوتا ہے۔