کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے دنيا بھر ميں آن لائن خريد و فروخت، کاروبار اور رابطہ کاری کی ميں خاصا اضافہ ديکھا گيا۔ اسی کے ساتھ ڈيجيٹل ميدان ميں صلاحيتوں کی مانگ ميں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اشتہار
پاکستان میں ایک حکومتی ادارے نے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں کے طلباء کو ڈیجیٹل امور کی ٹريننگ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس سے نوجوان نسل کے کئی افراد مستفيد ہو رہے ہيں۔
یہ منصوبہ نیشنل رُورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی)، سٹی فاؤنڈیشن اور پاکستان تخفیف غربت فنڈ (پی پی اے ایف) کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔ اب تک اس کے تحت 200 سے زائد نوجوانوں کو سوشل میڈیا مینجمنٹ، ای کامرس، گرافک ڈيئزائننگ اور انفارميشن ٹيکنالوجی کی بلا معاوضہ ٹریننگ دی جا چکی ہے۔ پروگرام میں پسماندہ اور کم ترقی یافتہ علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کو ترجیح دی گئی ہے۔
روزگار کے مواقع
بہاولپور کے علاقے حاصل پور کے چک 143 مراد سے تعلق رکھنے والی زوفا ساجد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ان کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے اور انہوں نے بارہويں جماعت تک پڑھائی حاصل کی ہے۔ زوفا نے بتایا، ''میں نے کچھ مہینے پہلے این آر ایس پی کے اس کورس میں داخلہ لیا اور کورس مکمل کرنے کے بعد کچھ امریکی کمپنیوں سے رابطہ کیا۔ مجھے اس وقت بے انتہا خوشی ہوئی، جب 75 ڈالر کی میری پہلی کمائی میرے ہاتھ ميں آئی۔‘‘
زوفا کے مطابق ان کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے، جو کھیتی باڑی کرتا ہے اور ان کے گاؤں میں پڑھائی لکھائی کا بہت زیادہ رجحان نہیں ہے۔ ''میں اب ديگر کمپنیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں اور ای کامرس کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کر رہی ہوں۔‘‘
حاصل پور کے ہی ایک گاؤں چک 87 ایف سے تعلق رکھنے والے عبدالرحیم نے بھی اس کورس میں حصہ لیا۔ انیس سالہ عبدالرحیم نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''میرا ایک کزن پہلے ہی ڈیجیٹل اسکلز سیکھ کر لاہور میں کام کر رہا ہے اور مجھے بھی یہ کام کرنے کا شوق تھا لیکن میرے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔ مجھے سٹی فاؤنڈیشن کے اس پروگرام نے یہ ٹریننگ مفت فراہم کی۔ ابھی میں نے صرف کام شروع کیا ہے اور میں ماہانہ تقریباً پانچ ہزار روپے کما رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اگر میں کام جاری رکھوں گا تو بیس سے پچیس ہزار روپے ماہانہ کما سکوں گا۔‘‘
اشتہار
خواتین کے ليے مناسب
کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن سے تعلق رکھنے والی شہلا پروین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کورسز خواتین کے لیے بہت مناسب ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہمارا معاشرہ قدامت پسند ہے، جہاں خواتین کو بہت سارے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر وہ انجینيئرنگ یا میڈیکل کر کے ملازمت کر بھی لیں، تو شادی کے بعد انہیں ملازمت ترک کرنی پڑتی ہے۔ البتہ آن لائن مارکیٹنگ یا ڈیجیٹل اسکلز ایک ایسا ہنر ہے جس کو آپ شادی کے بعد بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔‘‘
شہلا پروین کے مطابق انہوں نے ای کامرس میں اپنا کورس مکمل کیا اور پھر اس کے بعد محلے کی ایک کاسمیٹکس کی دکان کے ليے کام کرنا شروع کیا۔ ''شروع میں دکان مالک نے پیسے نہیں دیے لیکن بعد میں جب میں نے اس کی مصنوعات کو اچھے طریقے سے مارکیٹ کیا، تو اس نے مجھے اپنی پراڈکٹس فروخت کی اجازت بھی دے دی اور میں تھوڑے بہت پیسے کمانا بھی شروع ہو گئی۔‘‘
خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے روزگار کی منفرد سروس
03:36
’کورسز سیکنڈری لیول پر شروع کيے جائیں‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ڈاکٹر فہد ابدالی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ای کامرس کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور آنے والے وقت میں ڈیجیٹل اسکلز مزید اہمیت اختیار کر جائیں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نویں اور دسویں کلاس سے اس طرح کے کورسز شروع کریں تاکہ آگے جا کے طالب علموں کو اس حوالے سے مزید سیکھنے کا موقع ملے۔‘‘
ڈاکٹر فہد ابدالی کے مطابق ملتان اور جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں دستکاری کا کام ہوتا ہے اور چھوٹے شہروں میں نوجوان طالب علم ان اسکلز کے ذریعے ایسی اشیاء کی مارکیٹنگ کر سکتے ہیں۔ ''اس کے علاوہ سوشل میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے مقامی سیاستدانوں کی سیاسی تشہیر کی جا سکتی ہے کیونکہ عموماً مقامی سیاست دانوں کی یا تو سوشل میڈیا سے اتنی وافیت نہیں ہے یا ان کے پاس اس کو استعمال کرنے کا وقت اور ہنر نہیں ہے۔ یوٹیوب کی وجہ سے بھی پسماندہ اور دور دراز کے علاقے کے نوجوانوں نے روزگار کے مواقع تلاش کر لیے ہیں اور ان کی دلچسپی ڈیجیٹل اسکلز میں بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘
پاکستانی خواتین: روزگار اور مواقع
پاکستان کی آبادی میں مردوں کا تناسب اکاون فیصد اور خواتین کا تناسب انچاس فیصد ہے لیکن روزگار کی ملکی منڈی میں خواتین کی تعداد مردوں سے نصف ہے۔ پاکستان کی ملازمت پیشہ یا اپنا کوئی کام کرنے والی خواتین کے چہرے:
تصویر: DW/I. Jabeen
پہلی ٹرک ڈرائیور شمیم اختر
پیدائشی طور پر گوجرانوالہ اور آج کل راولپنڈی کی رہائشی شمیم اختر پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور خاتون ہیں۔ چون سالہ شمیم مالی مجبوریوں کی وجہ سے مال بردار ٹرک کی ڈرائیور بنیں حالانکہ اس شعبے میں ڈرائیونگ صرف مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں خواتین ٹیکسیاں اور رکشے بھی چلاتی ہیں لیکن مرد ڈرائیوروں کے مقابلے میں ان کا تناسب انتہائی کم ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ترقیاتی شعبے میں خدمات
اسلام آباد کی رہنے والی سیدہ مجیبہ بتول گزشتہ سولہ برسوں سے ترقیاتی شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کئی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیموں کے لیے کام کر چکی ہیں اور اس وقت ترقیاتی شعبے میں انتظامی امور کے ایک مشاورتی ادارے کی اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ مجیبہ کی طرح بہت سی دیگر پاکستانی خواتین بھی غیر حکومتی ترقیاتی شعبے میں کام کرتی ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں اس شعبے میں بھی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔
تصویر: Mujeebah Batool
سڑکوں سے کوڑے کرکٹ کی صفائی
چھپن سالہ شاہدہ شموئیل کو اسلام آباد میں سڑکوں پر صفائی کرتے برسوں گزر چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں ترقیاتی امور کے نگران ادارے سی ڈی اے کی ملازمہ ہیں۔ شاہدہ کا کہنا ہے کہ ان کے آٹھ بچے ہیں جن میں سے چند شادی شدہ بھی ہیں لیکن خود شاہدہ کا مالی طور پر ان کی تنخواہ میں گزارہ مہنگائی کی وجہ سے ناممکن ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خواتین قیدیوں کی مدد
فوزیہ خالد ایک ماہر نفسیات ہیں، جو خواتین کی بہبود کے شعبے میں خاص طور پر ایسی عورتوں پر توجہ دیتی ہیں، جن پر پاکستانی معاشرے میں سب سے کم دھیان دیا جاتا ہے۔ فوزیہ جیلوں میں بے سہارا خواتین کی مدد کرنے والے ایک نجی فلاحی ادارے سے منسلک ہیں اور اپنا کافی وقت مختلف جیلوں، خاص کر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی قیدیوں کے ساتھ گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خواتین کے زیر جاموں کی فروخت
سمعیہ بی بی اسلام آباد میں پشاور موڑ پر ہر اتوار بازار میں دو سال سے اپنا سٹال لگاتی ہیں اور خواتین کے زیر جامے فروخت کرتی ہیں۔ وہ یہ سامان خود پشاور سے لا کر اسلام آباد میں بیچتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ان مردانہ نظروں پر غصہ آتا ہے، جن میں عورت کے لیے کوئی عزت نہیں ہوتی۔ سمعیہ کی طرح بہت سی پاکستانی خواتین مختلف مارکیٹوں میں کئی طرح کا سامان بیچتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیمی شعبے میں خدمات
شگفتہ اسد کی بچوں کے لیے تعلیم میں دلچسپی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے قائم کیے ہوئے سپرنگ بورڈ اسکول سسٹم کی متعدد شاخیں چلاتی ہیں۔ شگفتہ کی بنیادی ذمہ داری ایک منتظمہ کی ہے، لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں اسکول جانے کی عمر کے کئی ملین بچے اسکول جاتے ہی نہیں۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، پاکستانی تعلیمی شعبے میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے۔
تصویر: Shagufta Asad
ڈاکٹروں کے طور پر ناگزیر کردار
ڈاکٹر فرحت ارشد راولپنڈی میڈیکل کالج اور کئی دیگر طبی اداروں سے وابستہ زچہ و بچہ سے متعلق امراض کی ایک ماہر معالج ہیں۔ پاکستان میں بہت سے شہری طبی سہولیات سے محروم ہیں اور ملکی آبادی میں ڈاکٹروں کا مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے تناسب بھی خوش کن نہیں۔ پاکستانی خواتین میں ڈاکٹر بننے کا رجحان کئی برسوں سے کافی زیادہ ہے۔ اکثر خواتین علاج یا معائنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں کے پاس ہی جانا چاہتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نرسنگ، ایک پسندیدہ پیشہ
کوئی ہسپتال سرکاری ہو یا نجی، شہر میں ہو یا دیہی علاقے میں، نرسنگ کے بغیر طبی شعبے کی کامیاب کارکردگی کا تصور کہیں بھی ممکن نہیں۔ پاکستانی طبی شعبے میں نرسنگ کرنے والے پیشہ ور اور تربیت یافتہ افراد میں خواتین کی تعداد ہمیشہ ہی بڑی اکثریت میں رہی ہے۔ مرد نرسوں کی تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔ پورے پاکستان میں کل وقتی یا جزوقتی عملے کے طور پر لاکھوں خواتین پیشہ ور نرسوں کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھریلو خواتین، نظر انداز کر دی گئی اکثریت
شبانہ حارث اسلام آباد میں رہتی ہیں، شادی سے پہلے باقاعدہ ملازمت کرتی تھیں لیکن اب دو بچوں کی والدہ ہیں اور ایک گھریلو خاتون۔ خانہ داری کرنے والی کسی بھی خاتون یا ہاوس وائف کا صبح سے شام تک جاری رہنے والا کام کسی کل وقتی ملازمت یا روزگار سے کم نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی خواتین معیشت اور روزگار کی ملکی منڈی میں اپنی کوئی جگہ نہیں بنا پاتیں۔
تصویر: Shabana Haris
لاکھوں گھریلو ملازمائیں
پاکستانی دارالحکومت میں پانچ افراد پر مشتمل ایک گھرانے میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی بائیس سالہ ناصرہ کو ماہانہ دس ہزار روپے ملتے ہیں، جو دراصل اسے نہیں ملتے بلکہ اس کے والدین آ کر لے جاتے ہیں۔ ناصرہ اپنے آجر خاندان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ پاکستان میں کئی لاکھ خواتین اور نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جو گھریلو خادماؤں کے طور پر کام کرتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
فٹنس اور یوگا کی نجی تربیت
اسلام آباد کے سماجی حلقوں میں معروف فٹنس ٹرینر صنوبر نظیر خواتین کو بدلتے ہوئے معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ ملازمت اور بزنس پیشہ خواتین کو نجی طور پر جسمانی فٹنس اور یوگا کی تربیت دیتی ہیں۔پاکستان میں کئی ایسے شعبے ہیں، جن میں خواتین دوسری خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ ان میں یوگا، فٹنس، پیراکی، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نجی ٹریننگ جیسے شعبے شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
انٹیریئر ڈیزائننگ کے ذریعے خود انحصاری
آرٹ کے پس منظر کی حامل اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی پارس محمود شاہ ایک انٹیریئر ڈیزائنر ہیں جنہوں نے ثقافتی ورثے سے اپنی محبت کے باعث گھروں اور غیر رہائشی عمارات کی اندرونی تزئین و آرائش کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ وہ اس آرائش کے لیے ٹائلوں، دیواروں اور فرنیچر کی پینٹنگ سے کام لیتی ہیں۔ آرٹ اور ڈیزائننگ کو ملا کر جس طرح اپنا پیشہ انہوں نے بنایا ہے، ویسا بہت کم پاکستانی خواتین کرتی ہیں۔
تصویر: Paras Shah
بیوٹی پارلر چلانا بھی ایک کامیاب پیشہ
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہزارہا خواتین نے اپنے میک اپ سیلون اور بیوٹی پارلر کھول رکھے ہیں، شادیوں پر دلہنوں کا خطیر رقوم دے کر پارلر سے میک اپ کروانا ایک روایت بن چکا ہے۔ اس طرح بہت سے ایسی خواتین کے لیے بھی، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یا کسی سائنسی پیشے کی ماہر نہیں بھی ہوتیں، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ایک نیا اور کامیاب رستہ کھل چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
زرعی شعبے میں خواتین کا حصہ
ایک نیم دیہی علاقے میں مویشیوں کے لیے گھاس کاٹنے والی یہ خواتین پاکستان کی ان کئی ملین خواتین کے کردار کی علامت ہیں، جو دیہی علاقوں میں زرعی شعبے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستان کی قریب 65 فیصد آبادی دیہی یا نیم دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ پاکستانی معیشت زیادہ تر ایک زرعی معیشت ہے، جس میں خواتین کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
14 تصاویر1 | 14
حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل اسکلز کا فروغ
اقوام متحدہ کے اعلی سطحی پینل برائے ویمنز اکنامک ڈيولپمنٹ کی رکن فضا فرحان کے ایک آرٹیکل کے مطابق پاکستان میں اس وقت 176 ملین اسمارٹ فون استعمال کرنے والے ہیں جب کہ 70 ملین انٹرنیٹ صارفین ہیں۔ ان میں سے تیس ملین فیس بک استعمال کرتے ہیں اور صرف دو ملین ٹویٹر استعمال کرتے ہیں۔
یہ تاثر عام ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستانی انفارمیشن ٹیکنالوجی سيکٹر بہت پیچھے ہے۔ تاہم وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔ امین الحق نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''موجودہ حکومت ڈیجیٹل اسکلز پر بہت کام کر رہی ہے۔ ہم نے ڈیجیٹل اسکلز پروگرام ون کے تحت پینتیس لاکھ نوجوانوں کو مفت ٹریننگ دی اور اس پروگرام کے دوسرے مرحلے کے ليے آٹھ لاکھ سے زائد نوجوان پہلے ہی اندراج کرا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر فری لانسرز کے ليے بھی پروگرام شروع کر رہے ہیں۔‘‘
سید امین الحق کے مطابق اس کے علاوہ حکومت بڑی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر بھی مختلف نوعیت کے پراجیکٹس کر رہی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیجیٹل اسکلز کے حوالے سے تربیت دینے کا سلسلہ بہت اچھا ہے لیکن نیشنل رورل سپورٹ پروگرام، سٹی فاؤنڈیشن اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو 'ڈیجیٹل حبز‘ قائم کرنے کی ضرورت ہے، جہاں پر ایسے تجربہ کار افراد کو متعین ہونا چاہیے جو ہنر سیکھنے والے ان طالب علموں کا رابطہ صنعتوں اور سروس انڈسٹریز سے کرا سکیں اور ان کے ليے روزگار کے مواقع تلاش کر سکیں۔