1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر ماہرین کی تنبیہ

26 جولائی 2024

اقوام متحدہ کے ماہرین نے پاکستان کی احمدی اقلیتی برادری کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں احمدی باشندوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستانی آئین میں احمدی باشندوں کو سن 1974 میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا
پاکستانی آئین میں احمدی باشندوں کو سن 1974 میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے منسلک کئی آزاد ماہرین کے ایک گروپ نے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف ہونے والے تفریقی سلوک اور تشدد میں مبینہ اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

احمدیوں پر حملوں میں تیزی، انسانی حقوق کی تنظمیوں کی تشویش
انسانی حقوق کے ماہرین نے پاکستان میں اس مذہبی اقلیتی برادری کے ''ماورائے عدالت قتل، غیر قانونی گرفتاریوں، ان کی عبادت گاہوں پر حملوں اور آزادی اظہار و اجتماع نیز انجمن پر پابندی‘‘ جیسے واقعات کو اجاگر کیا ہے۔

ان ماہرین کی تقرری اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کرتی ہے، تاہم وہ بذات خود اقوام متحدہ کی جانب سے بات نہیں کرتے اور ان کے تبصرے اس ادارے کے ماہرین کی رائے نہیں مانے جاتے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے کیا کہا؟

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے آزاد ماہرین نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ہم پاکستان میں احمدیہ کمیونٹی کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک سے متعلق جاری ہونے والی رپورٹوں سے کافی پریشان ہیں۔ ہم پاکستانی حکام سے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔‘‘

ان ماہرین نے مزید کہا، ''ان پرتشدد حملوں، نفرت اور امتیازی سلوک کے وسیع ماحول کا جواب دینے کے لیے فوری اقدامات کرنا ضروری ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس ضمن میں آٹھ جولائی سن 2024 کو سعد اللہ پور میں دو احمدیوں کے ماورائے عدالت قتل اور رواں برس ہی چار مارچ کے روز بہاولپور میں احمدی برادری کے صدر کے قتل جیسے مخصوص واقعات کا حوالہ بھی دیا۔

نفرت اور تشدد، پاکستانی احمدی اقلیت کی چین کو ہجرت
انہوں نے رواں برس کے آغاز سے احمدیوں کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر متعدد حملوں کا ذکر بھی کیا، جن میں سے بعض حملوں کے نتیجے میں نمازیوں کو شدید چوٹیں بھی آئی تھیں۔
پاکستان میں احمدی برادری کی قیادت کے مطابق ملک میں تقریباً پانچ لاکھ احمدی رہتے ہیں۔
پاکستانی آئین میں احمدی باشندوں کو سن 1974 میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا اور سن 1984 کا ایک قانون انہیں ملک میں اپنے عقیدے کے اسلامی ہونے کا دعوی کرنے یا کھلے عام اسلامی رسومات پر عمل کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔
ماہرین نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا، ''احمدیوں کے اپنے عقائد کو پرامن طریقے سے ظاہر کرنے کے حق کا احترام کیا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ ''عدالتی سطح پر انہیں ہراساں کرنا، غیر ریاستی عناصر کے ذریعے احمدیوں کے خلاف تشدد کو معمول پر لانے کا کام کرتا ہے۔‘‘

پاکستان میں احمدی برادری کی قیادت کے مطابق ملک میں تقریباً پانچ لاکھ احمدی رہتے ہیںتصویر: Getty Images/D. Berehulak

قومی اسمبلی کی قرارداد کی تعریف

اقوام متحدہ کے ماہرین نے رواں برس 23 جون کے روز پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرف سے ایک قرارداد کی منظوری کو بھی سراہا اور اس کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ ملک میں مذہبی اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا، ''قومی اسمبلی کی قرارداد خوش آئند قدم ہے۔ تاہم امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کے لیے اس طرح کی نیک نیتی کی کوششیں اس وقت تک بے اثر رہیں گی جب تک کہ ان کے ساختی محرکات کو حل نہیں کیا جاتا۔‘‘
ان ماہرین کا کہنا تھا کہ اس میں ''توہین رسالت سے متعلق قوانین اور ایسی تفریقی قانونی دفعات شامل ہیں، جو احمدیوں، ان کے قانونی نمائندوں، اور اتحادیوں، اور دیگر مذاہب یا عقیدہ رکھنے والی اقلیتوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین خطرے میں ڈالتی ہیں۔‘‘
ص ز/ ج ا، م م (نیوز ایجنسیاں)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں