پاکستان میں ادویات کے نئے بحران کا خطرہ
13 مارچ 2012 ادویات ساز اداروں کے بقول بعض ادویات میں استعمال ہونے والے نشہ آورمادے کا کوٹہ نارکوٹکس کنٹرول بورڈ ہر سال کے شروع میں جاری کر دیتا ہے۔ اس سال دو ماہ سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باوجود یہ کوٹہ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے اور ادویات ساز کمپنیوں کے پاس خام مال ختم ہو رہا ہے۔ اس لیے اگلے چند ہفتوں میں کینسر،درد، بے خوابی، ڈپریشن، ذہنی امراض،اور کھانسی سمیت متعدد امراض کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کی شدید قلت ہو سکتی ہے۔ یاد رہے،نشہ آور مادے سے بننے والےایسی چھہ سو ادویات کی فہرست میں جان بچانے والی کئی ادویات بھی شامل ہیں۔
میو ہسپتال میں دماغی امراض کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر ریاض بھٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قدرتی آفات ، دہشت گردانہ وارداتوں، بجلی اور گیس کے بحرانوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے دماغی امراض کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، ان کے بقول عالمی ادارہ صحت( ڈبلیو ایچ او) کی طرف سے جاری کیے جانے والےاعدادوشمار کے مطابق سن دو ہزار بیس میں دنیا میں ڈپریشن صحت کا سب سے بڑا مئسلہ ہو گا۔ ان کے بقول ان حالات میں پاکستان میں دماغی امراض کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی بعض ادویات کی کمیابی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ " اگر پاکستان میں دماغی امراض کی ادویات کی قلت کو نہ روکا گیا تو یہ ایک بڑے بحران کا باعث بن سکتی ہے۔"
ایک ادویات ساز ادارے کے سربراہ طارق واجد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بعض ادویات کی تیاری میں کچھ نشہ آور اجزا استعمال ہوتے ہیں جن کا کوٹہ حکومت جاری کرتی ہے۔ اس سال یہ کوٹہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اور ادویات ساز کمپنیوں کے پاس صرف اگلے دو تین ہفتوں کا اسٹاک باقی رہ گیا ہے۔ ان کے بقول بار بار رابطہ کرنے کے باوجود اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا۔ یہ صورتحال ہیلتھ سیکٹر میں ایک نئے بحران کا باعث بننے جا رہی ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نارکوٹکس کنٹرول بورڈ کے کوٹے میں اضافے کی بھی شدید ضرورت ہے۔
فارما بیورو کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سعدیہ نے بتایا کہ اصل بات یہ ہے پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے ذریعے محکمہ صحت کی صوبوں کو منتقلی کے بعد سے ہیلتھھ سیکٹر کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ابھی تک پوری طرح فنکشنل نہیں ہو سکی ہے، جس کی
وجہ سے سارے کام رکے پڑے ہیں، دوائیوں کی رجسٹریشن، پرائسنگ اور لائیسنسگ کا تمام کام بھی رکا پڑا ہے، دنیا بھرمیں میڈیکل کے شعبے میں نت نئی تحقیقات ہو رہی ہیں، امراض کے علاج کے لیے جو نئی اور موثر ادویات آرہی ہیں پاکستانی مریض ان سے محروم ہیں، حال ہی میں ذیابیطس کے علاج کے لیے جو بریک تھرو دوائی مارکیٹ میں آئی ہے، پاکستانی مریض اس سے بھی محروم ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک سو بیس دنوں کے لیے جاری کیے گیے ایک آرڈیننس کے تحت جوڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی گئی ہے اس کی ابھی تک صرف دومیٹنگز ہو سکی ہیں جبکہ اس کا اجلاس ہر مہینے ہونا چاہیے۔ محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق اس وقت سو سے زائد ادویات رجسٹریشن کی منتظر ہیں، بہت سے ادویات پرائسنگ کے مرحلے میں زیر التوا ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کےاعتماد کی حامل، ایک طاقتور سرکاری افسرنرگس سیٹھی جو کہ کابینہ ڈویزن کی سیکریٹری ہیں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی چیئر پرسن ہیں۔ ان کی مصروفیات کو بھی ہیلتھ سیکٹر کے مسائل کی ایک وجہ سمجھا جاتا ہے۔
ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں معاملے کی سنگینی کا احساس تو ہے لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد اب ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کے بقول ان امور پر بہت پہلے غور کیا جانا چاہیے تھا۔
سروسز ہسپتال میں موجود ایک مریض شبیر احمد نے بتایا کہ ڈینگی، سیلاب، جعلی ادویات اور ڈاکٹروں کی ہڑتال کے ستائے ہوئے پاکستانی مریضوں کی خواہش ہے کہ حکومت ان کو مزید بحرانوں سے بچانے کے لیے کام کرے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: کشور مصطفیٰ