پاکستان میں اسرائيل کو تسلیم کرنے کی بحث
12 ستمبر 2019یہ بحث حاليہ دنوں ميں اس وقت چھڑی جب اس موضوع پرکچھ دنوں پہلے معروف پاکستانی مصنفہ عائشہ صدیقہ نے ایک اسرائیلی انگریزی روزنامے میں ایک کالم لکھا۔ پاکستان ميں انگریزی اخبار ڈان کے کالم نگار ایف ایس اعجاز الدین نے آج بروز جمعرات اس موضوع پر کالم لکھا اور یہ سوال اٹھایا کہ سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کے ليے آئے تھے یا پھر وہ اسلام آباد کو اس بات پر قائل کرنے کے مقصد سے آئے تھے کہ اسرائیل کو تسلیم کيا جائے۔ يہ آرٹیکل سوشل میڈیا پر کافی توجہ کا مرکز بنا اور ملک کے کئی حلقوں میں اس معاملے پر بحث جاری ہے۔
مصنفہ عائشہ صدیقہ کا دعوی ہے کہ عمران خان نے اپنے دورہ امریکا کے دوران طاقتور حلقوں کے آشیر باد کے ساتھ تین وعدے کيے تھے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''خان صاحب نے ایک امریکی ڈاکٹر کی افغان طالبان سے رہائی، افغانستان میں جنگ بندی اور طالبان سے مذاکرات سميت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوششوں کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ساری چیزیں درہم برہم ہو گئی ہیں۔‘‘
عائشہ صدیقہ کا مزيد کہنا ہے کہ پاکستان کی سوچ یہ ہے کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، تو اس کا مغرب میں امیج بہتر ہوگا۔ ''امریکا میں مضبوط یہودی لابی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہوں گے، جس سے ملک کو عالمی سطح پر فائدہ ہوگا اور وہ اسرائیل کی جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر سکے گا۔ اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھا کر وہ اپنے روايتی حريف ملک ایران کے خلاف کارروائی کرے کیوں کہ اس کا بالآخر ہدف ایران ہے۔‘‘
پاکستان اور اسرائیل کے مابين سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن کئی ماہرین کا دعوی ہے کہ سرد جنگ کے دوران مغربی کیمپ میں ہونے کی وجہ سے پاکستان اور اسرائیل کے بالواسطہ تعلقات رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے نہر سوئز کے مسئلے پر عربوں کی حمایت نہیں کی جبکہ ستر کے دہائی میں اردن میں جنرل ضیاء کی سربراہی میں مبینہ طور پر فلسطینیوں کے خلاف ملٹر ی ایکشن اردن کی حکومت نے لیا جس میں پاکستان نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ان وجوہات کی بنا پر پی ایل او اور دوسرے فلسطینی گروپوں کے بھارت سے تعلقات بہتر رہے لیکن پاکستان اور فلسطینیوں کے درمیان اتنی گرم جوشی نہیں رہی۔ لیکن عوامی سطح پر ملک میں ہمیشہ فلسطینیوں کے ليے حمایت پائی گئی ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جرات نہیں کر سکی۔ یہاں تک کہ کچھ عرب ریاستوں نے بھی تل ابیب کو تسلیم کیا اور پی ایل او نے بھی۔
لیکن چند ماہرین کا خیال ہے کہ ان بدلے ہوئے حالات میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنا ممکن نہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شیعب کا کہنا ہے کہ ڈان میں چھپنے والے آرٹیکل کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ''میری اطلاعات یہ ہیں کہ سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کرنے کے ليے آئے تھے۔ انہوں نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ اسلام آباد کی کشمیر کے مسئلے پر حمایت کریں گے لیکن اسلام آباد اسے امہ کا مسئلہ نہ بنائے۔ تو یہ واضح ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی خبریں کچھ عرصے سے چل رہی ہیں لیکن یہ باتیں بے بنیاد ہیں۔ ''چھ یا آٹھ مہینے پہلے اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن یاہو کے جہاز کی خبر چلی تھی کہ ان کا جہاز پاکستان میں رکا اور پھر عمان گیا۔ میرے خیال میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی بھی بات نہیں ہو رہی اور اگر ایسی کوئی بات ہونی ہے تو وہ پھر پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے اور پارلیمنٹ ملک کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر یہ فیصلہ کرے کہ ایسا کرنا ملک کے ليے بہتر ہے یا نہیں۔ لیکن فی الحال اس طرح کی کوئی بات نہیں ہو رہی۔‘‘
برسر اقتدار پارٹی پاکستان تحريک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے موقف پرانا ہے۔ ''ہم اسرائیل کے مظالم اور کشمیر میں بھارتی مظالم میں مماثلت کی بات کرتے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کے قریبی تعلقات ہیں تو ہم ایسے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کیوں بات کریں گے۔ ہمارے مخالفين پہلے ہی ہمارے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں تو ہم ایسے اقدامات کر کے سیاسی خود کشی کیوں کریں گے۔ میرے خیال میں یہ صرف افواہیں ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں سابق صدر جنرل پرويز مشرف کے دور سے چل رہی ہیں۔ ''لیکن عوامی مخالفت کی وجہ سے کوئی حکومت اس پر بات نہیں کر پائی۔ میرے خیال میں پاکستان اس وقت کشمیر میں مصروف ہے تو عرب ممالک ایسے موقع پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کر سکتے۔ انہیں معلوم ہے کہ عمران خان کی حکومت کمزور ہے اور اس پر یہودی لابی کے ایجنٹ ہونے کا بھی مخالفین الزام لگاتے ہیں۔ تو افواہیں تو ہیں لیکن ممکن نہیں کہ حکومت ایسا کرے۔‘‘