پاکستان میں اس سال بھی سیلاب کا خطرہ
26 جولائی 2011بین الاقوامی امدادی ادارے آکسفیم کی جانب سے منگل کے روز جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مون سون کا نیا سیزن شروع ہو چکا ہے اور دریائے سندھ کے کنارے بسنے والے 50 لاکھ افراد کو اب بھی سیلاب کے خطرے کا سامنا ہے۔
’تیار یا نہیں‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ملک کے بیشتر حصوں میں ابھی تک سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والا نظام موجود نہیں ہے۔ متاثرین کی بحالی کے لیے ابھی بھی بہت سا کام نا مکمل ہے۔
آکسفیم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے گلوبل ایڈوائزر جویریہ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کی اپنی رپورٹوں کے مطابق بعض علاقوں میں سیلاب سے بچنے کے لیے حفاظتی پشتوں پر سو فیصد کام مکمل نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ابھی ہم لوگ گھوٹکی میں تھے، جہاں پر ایک گاؤں میں نچلے درجے کا سیلاب تھا اور وہاں پر لوگ اپنے گھروں کی اینٹیں نکال رہے تھے تاکہ وہ اپنے گھروں کو نسبتاً اونچی جگہ پر دوبارہ تعمیر کر سکیں۔ گھوٹکی کے قریب حفاظتی پشتوں کی مرمت کا کام مکمل نہیں ہوا تھا تو اس گاؤں میں سیلاب آیا۔ جنوبی پنجاب میں لیہ کے مقام پر بھی نچلے درجے کا سیلاب تھا اور لوگ وہاں سے نکل رہے تھے حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اقدامات کو عملی جامہ پہنائے‘‘۔
پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ سیلاب کے تجربات سے بہت سبق سیکھے گئے ہیں اور ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ صورتحال کافی بہتر ہے۔ این ڈی ایم اے کے ترجمان احمد کمال نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ’’آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کل کے مقابلے میں آج بہتر طریقے سے قومی ادارے سے مربوط ہیں۔ ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے ضلعی، صوبائی اور وفاقی سطح پر منصوبے بنائے گئے ہیں اور یہ اپروچ رکھی گئی ہے کہ خدانخواستہ اگر کوئی سانحہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے متعلقہ ضلعی ادارہ اس سے نمٹنے کی کوشش کرے گا، اس کے بعد صوبائی اور پھر وفاقی سطح پر رابطہ کیا جائے گا‘‘۔
اقوام متحدہ نے حال ہی میں کہا ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود پاکستانی متاثرین سیلاب کے لیے کی گئی امدادی اپیل کا تیس فیصد حصہ وصول نہیں ہو سکا۔ عالمی ادارہ برائے خوراک کے نمائندے امجد جمال کا کہنا ہے کہ گزشتہ سیلاب کے بعد انفراسٹرکچر کی مکمل بحالی نہ ہونے کے علاوہ امدادی رقم کی کمی کے سبب بھی متاثرین کو امداد پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس وقت جو ہمارا ہنگامی امداد اور بحالی کا آپریشن ہے، اس میں ہمیں دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر ہم نے اس سال کے آخر تک اور آئندہ سال کے لیے بغیر کسی خلل کے اپنی امدادی کارروائیوں کو جاری رکھنا ہے، تو ہمیں مجموعی طور پر 66 ملین ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان دونوں منصوبوں کو آسانی اور بغیر کسی رکاوٹ کے چلا سکیں‘‘۔
ادھر احمد کمال کا کہنا ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی کے مطابق گزشتہ مون سون سیزن کے مقابلے میں اس مرتبہ دس فیصد کم بارشیں ہوں گی، اس لیے فوری طور پر کسی بڑے سیلابی ریلے کا خطرہ نہیں ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی