1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمیورپ

پاکستان میں افغان ویزا اسکیم کا غلط استعمال نہیں ہوا، جرمنی

26 جولائی 2024

جرمن وزیر خارجہ کے مطابق جرمنی کے ویزے کے لیے تمام اہل درخواست دہندگان کی حفاظتی نقطہ نظر سے مکمل چھان بین کی جاتی ہے۔ ایک میگزین کی رپور‌ٹ کے مطابق پاکستان میں افغانوں کے لیے جرمن ویزا اسکیم کا غلط استعمال کیا گیا۔

جرمن وزیر خارجہ اینا لینا بیئر بوک
جرمن وزیر خارجہ اینا لینا بیئر بوک تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اپنے ایک بیان میں اس میڈیا رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے، جس کے مطابق پاکستانی ایجنٹ افغان باشندوں کے لیے ویزا اسکیم کے ذریعے جرمنی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ شمالی جرمن شہر فلینزبُرگ میں دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی ایک کمپنی کے دورے کے موقع پر جرمن وزیر خارجہ  نے کہا کہ جرمن ویزے کے لیے تمام ممکنہ درخواست دہندگان کی حفاظتی نقطہ نظر سے ہمیشہ مکمل چھان بین کی جاتی ہے۔

اسلام آباد میں قائم جرمن سفارت خانے کی عمارتتصویر: Thomas Imo/photothek/picture alliance

بیئربوک 'سیسرو‘ نامی میگزین کی اس رپورٹ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اپنا رد عمل ظاہرکر رہی تھیں، جس کے مطابق اسلام آباد میں جرمن سفارت خانے نے اس پروگرام کےغلط طریقے سے استعمال کیے جانے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

اس میگزین نے جرمن دفتر خارجہ کی ایک دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ایک کیس میں سات افراد پر مشتمل ایک خاندان شامل ہے، جو مبینہ طور پر افغانستان سے جرمنی پہنچا تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ اسے '' پاکستانی حکام نے  ترتیب دیا تھا۔‘‘ اس خاندان کے پانچ افراد مبینہ طور پر اب بھی جرمنی میں مقیم ہیں۔ تاہم اس خاندان کے سربراہ، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ آسٹریلوی فوج میں ہیئر ڈریسر کے طور پر کام کرتے تھے، کے ایک مبینہ بیٹے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

انالینا بیئربوک نے کہا کہ جرمنی کے ویزے کے لیے طریقہ کار ''قانون اور قواعد کے مطابق‘‘ مکمل کیا جاتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جرمن وزارت داخلہ اور خارجہ ان سکیورٹی حکام کے ساتھ تعاون کرتی ہیں، جنہیں اہم سفارت خانوں میں صورت حال کا جائزہ لینے کا کام سونپا جاتا ہے۔

ش ر⁄ م م ( ڈی پی اے)

افغان مہاجرین کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے جرمن سینٹر

05:01

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں