پاکستان میں اقلیتی خواتین کی صورتحال
14 مارچ 2012’’خط زندگی سے نیچے‘‘ کے عنوان سے تیار کی جانے والی اس رپورٹ کو قومی کمیشن برائے امن و انصاف نامی ایک غیر سرکاری ادارے نے اقوام متحدہ کے خواتین کی بہبود کے لیے کام کرنے والے ادارے کی معاونت سے تیار کیا ہے۔ ملک کے چھبیس اضلاع میں کی گئی اس تحقیق کے لیے پاکستان کے صوبہ سندھ اور پنجاب سے ڈیٹا لیا گیا ہے۔ ان دو صوبوں میں پاکستان کی نوے فیصد سے زائد اقلیتی آبادی رہائش پذیر ہے۔
اس رپورٹ کے تیار کنندگان جینیفر جگ جیون اور پیٹر جیکب نے اس رپورٹ کی تیاری کے لیے ایک ہزار ہندو اور مسیحی خواتین کے انٹرویوز کیے۔
یہ رپورٹ پاکستان میں اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مسائل کے حوالے سے تازہ ترین اعداد وشمار لیے ہوئے ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تینتالیس فیصد اقلیتی خواتین کو اپنے کام کی جگہوں، تعلیمی اداروں اور آبادیوں میں مذہب کی بنیاد پر تعصبانہ رویوں کا سامنا ہے جبکہ ستائیس فیصد خواتین کو تعلیمی اداروں میں داخلوں کے وقت مذہب کی بنیاد پر تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں کیے گئے سروے کی جواب دہندہ اقلیتی خواتین میں سے صرف سینتالیس فیصد تعلیم یافتہ تھیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اقلیتی خواتین کی شرح خواندگی اوسط قومی شرح خواندگی یعنی ستاون فیصد سے کم ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رہنے والی اقلیتی خواتین کے بچوں میں شرح اموات بھی ملک میں بچوں کی اوسط قومی شرح اموات سے زیادہ ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں بچوں کی شرح اموات آٹھ اعشاریہ سات فیصد ہے جبکہ اقلیتی خواتین کے بچوں میں یہ شرح دس اعشاریہ تیس فیصد ہے۔
اس سروے کے دوران سوالوں کے جواب دینے والی ملازمت پیشہ خواتین میں سے 76 فیصد نے بتایا کہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اقلیتی خواتین سماجی اور معاشی ترقی کے ضمن میں بھی عام آبادی کے مقابلے میں پس ماندہ ہیں۔
اس تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والی ایک اچھی بات یہ ہے کہ بین ا لمذاہبی تعلقات کے ضمن میں پاکستان کی زیادہ تر اقلیتی خواتین یعنی 55 فیصد عورتوں کا خیال ہے کہ پاکستان کا عمومی ماحول ان کے لیے سازگار ہے لیکن خواتین کی بڑی تعداد کا یہ بھی خیال تھا کہ شانتی نگر اور گوجرہ جیسے واقعات کی صورت میں مقامی آبادی ان کا ساتھ نہیں دے گی۔
اس رپورٹ کے ایک مصنف اور قومی کمیشن برائے امن و انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ اقلیتی خواتین کی بہت بڑی تعداد اپنے قومی شناختی کارڈ بھی بنوا چکی ہے اور وہ اپنا ووٹ کا حق بھی استعمال کر رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں اقلیتی خواتین کو نہ صرف اقلیت ہونے کے ناطے بلکہ خواتین ہونے کی وجہ سے بھی دوہرے تعصب کا سامنا رہتا ہے۔ ان کے بقول تیس فیصد خواتین نے اس سروے میں پوچھے جانے والے حساس نوعیت کے سوالوں کے جوابات نہیں دیے۔ جس سے ان میں پائے جانے والے خوف و خدشات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اقلیتی خواتین کے خاندان ایسی خواتین کے فیصلہ سازی کے ذاتی حق پر اثر انداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی کے اہم فیصلے مرد کرتے ہیں۔
اس رپورٹ میں اقلیتی خواتین کو درپیش مذہبی اور صنفی امتیازی رویوں سے بچانے کے لیے قوانین اور پالیسیوں پر مکمل نظرثانی کی سفارش کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اقلیتی خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سول سوسائٹی اور حکومت کو ان کے مسائل کا ادراک کرنا ہوگا۔ رپورٹ میں اقلیتی خواتین کے حوالے سے سرکاری سطح پر اعداد وشمار فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں