پاکستان میں القاعدہ کے نمبر تین کی ہلاکت
1 جون 2010پاکستانی دفتر خارجہ اور فوج کا شعبہ تعلقات عامہ بھی اس القاعدہ رہنماء کی ہلاکت کے حوالے سے خبروں پر خاموش ہیں۔ ادھر امریکی حکام نے ابو یزید کی ہلاکت کے حوالے سے ایک اسلامی ویب سائٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں القاعدہ کی جانب سے 31 مئی کو جاری ہونے والا ایک بیان شائع کیا ہے جس کے مطابق مصطفیٰ ابو یزید اپنے اہل خانہ اور کوئی ساتھیوں سمیت پاکستانی قبائلی علاقے میں مارے گئے ہیں۔
القاعدہ اور قبائلی امور کے ماہر صحافی سلیم صافی کے مطابق اگر مصطفی ابو یزید کی ہلاکت کی خبر کو درست مان لیا جائے تو بقول ان کے یہ القاعدہ کے لئے اس خطے میں بہت بڑا دھچکا ہے:’’اس وقت القاعدہ کے اندر مصری گروپ قائدانہ کردار سرانجام دے رہا ہے اور مصطفی ابو یزید کی اس گروپ کے اندر ایک نمایاں حیثیت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مصطفی ابو یزید اس سارے علاقے جس کو القاعدہ اپنے لفظوں میں ’خراسان‘ کہتی ہے اور جس میں پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک شامل ہیں ان میں القاعدہ کے سرکردہ لیڈر تھے ۔
‘‘ خیال رہے کہ مصطفی ابو یزید جو شیخ السعید مصری کے نام سے بھ شناخت رکھتے ہیں اور انہیں اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے بعد القاعدہ کا اہم ترین رہنما مانا جاتا ہے۔ ماضی میں ابو یزید بعض موقعوں پر میڈیا کے سامنے آ کر بھی القاعدہ کے مشن کی ترویج کرتے رہے ہیں جب کہ اس سے قبل بھی دو مختلف موقعوں پر بھی مصطفی ابو یزید کے مارے جانے کی خبریں گردش کرتی رہی ہیں لیکن بعد میں خود ہی انہوں نے ایسی خبروں کی تردید کی تھی۔
دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کے مطابق امریکی حکام کی جانب سے ابو یزید کو پاکستانی قبائلی علاقوں میں مارے جانے کے دعوئوں کے بعد ان کی ہلاکت کی خبروں کی تصدیق پاکستانی طالبان یا مقامی قبائلی ذرائع ہی بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ بریگیڈیئر اسد کے مطابق امریکی اور پاکستانی حکام کو القاعدہ رہنماء کی ہلاکت سے متعلق فوراً کسی نتیجے پر پہنچنے کی بجائے قبائلی ذرائع سے ان کی موت کی تصدیق کرنی چاہئے۔
رپورٹ :شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت :شادی خان سیف