پاکستان میں امدادی تنظیم ’سیو دا چلڈرن‘ کے دفاتر سربمہر
12 جون 2015اسلام آباد سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی حکام کی طرف سے یہ اقدام جمعرات کی شام کیا گیا۔ اس کارروائی کے لیے سرکاری افسر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ وفاقی دارالحکومت کے عین وسط میں اس بین الاقوامی خیراتی تنظیم کے پاکستان میں قائم مرکزی دفتر میں پہنچے، جہاں کئی گھنٹے کی کارروائی کے اختتام پر اس کمپاؤنڈ کے صدر دروازے پر تالا لگا دیا گیا۔
کامران چیمہ نامی ایک اعلٰی سرکاری اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے حکومت کی ہدایت پر ’سیو دا چلڈرن‘ کے دفاتر سربمہر کر دیے ہیں۔ ہمیں اس اقدام کی وجوہات کا علم نہیں ہے۔ ہمیں وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے ایک تین سطری نوٹیفیکیشن موصول ہوا تھا، جس میں حکم دیا گیا تھا کہ اس تنظیم کے دفتر کو بند کرنے کے بعد اس کے کارکنوں میں شامل تمام غیر ملکی شہریوں کو اگلے 15روز کے اندر اندر واپس ان کے ملکوں کو بھیج دیا جائے۔‘‘
اے ایف پی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا تاہم پاکستانی وزارت داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ یہ بین الاقوامی امدادی تنظیم ’پاکستان دشمن‘ سرگرمیوں میں ملوث تھی۔
اس حکومتی اہلکار نے اپنی سرکاری حیثیت میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرنے کی اجازت نہ ہونے کے باعث شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ’’ان (سیو دا چلڈرن) کی سرگرمیوں پر طویل عرصے سے نظر رکھی جا رہی تھی۔ وہ ایسا کام کر رہے تھے جو پاکستان کے مفادات کے خلاف تھا۔‘‘
پولیس کے ایک اعلٰی مقامی افسر نے بتایا کہ اس وقت اسلام آباد میں اس تنظیم کے دفاتر والے کمپاؤنڈ کے باہر سرکاری حکم کے مطابق ایک پولیس افسر تعینات ہے۔ ذاتی طور پر پولیس کے مقامی سربراہ کو بھی علم نہیں کہ حکومت نے ’سیوا دا چلڈرن‘ کے اسلام آباد میں ان دفاتر کو کیوں بند کر دیا ہے۔
اسی دوران اسلام آباد میں بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی اس بین الاقوامی امدادی تنظیم کے ایک ترجمان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے ملکی دارالحکومت میں اس کا مرکزی دفتر بغیر کسی پیشگی تنبیہ کے سربمہر کر دیا ہے۔
اس تنظیم کے ترجمان کی طرف سے مزید کہا گیا کہ ’سیو دا چلڈرن‘ کو اپنے دفاتر اس طرح بند کیے جانے پر سخت تشویش ہے، اور اعلٰی ترین سطح پر پاکستانی حکام کو اس بارے میں ’شدید اعتراض‘ سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ اس وقت پاکستان میں جو کارکن اس تنظیم کے لیے کام کر رہے ہیں، ان میں کوئی غیر ملکی شہری شامل نہیں ہے۔
اے ایف پی کے مطابق 2012ء میں پاکستانی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ میں اس بین الاقوامی امدادی تنظیم کے ڈاکٹر شکیل آفریدی نامی اس پاکستانی شہری کے ساتھ مبینہ تعلق کا ذکر کیا گیا تھا، جس نے حفاظتی ٹیکے لگانے کی ایک جعلی مہم کے ذریعے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے سے تعاون کرتے ہوئے ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی موجودگی کی تصدیق کے لیے امریکا کی مدد کی تھی۔
اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد ’سیو دا چلڈرن‘ کے تمام غیر ملکی کارکنوں کو انہی دنوں پاکستان سے رخصتی پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اس خیراتی تنظیم نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے کہ اس کا ڈاکٹر شکیل آفریدی یا سی آئی اے سے کبھی کوئی تعلق رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں اس ادارے کے لیے کام کرنے والے مقامی کارکنوں کی تعداد قریب 1200 بنتی ہے۔