پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف کریک ڈاؤن میں متضاد رویے
بینش جاوید AFP
28 ستمبر 2017
سماجی ماہرین کے مطابق کئی بار عوامی سطح پر شرمندگی اٹھانے اور گھر پر نظر بند رہنے والے اسلام آباد کی متنازعہ لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز اپنی تقاریر کے ذریعے ابھی تک نوجوان پاکستانی شدت پسندوں کو متاثر کر رہے ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک مفصل جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز آج بھی قدرے شدت پسندانہ سوچ رکھنے والے مذہبی حلقوں میں ایک بہت بااثر شخصیت ہیں اور مدرسوں کے ایک پورے نیٹ ورک کی سربراہی بھی کر رہے ہیں۔
عبدالعزیز کئی بار پاکستان میں ’نظام خلافت‘ متعارف کرائے جانے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ دس سال پہلے تک، جب وہ لال مسجد کے خطیب تھے اور اپنے مغرب مخالف خطبات اور اسلام کی بہت سخت گیر تشریح کے باعث بہت شہرت بھی اختیار کر چکے تھے، تب وہ اپنے یہی خیالات ان ہزاروں طلبا و طالبات تک بھی پہنچاتے تھے جن کا تعلق پاکستان کے بہت دور دراز اور غریب علاقوں سے ہوتا تھا اور جو ان کے زیر انتظام یا زیر اثر مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
پاکستان: گزشتہ ایک عشرے کے بدترین دہشت گردانہ حملے
پاکستان نے 2001ء میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب سے ہی اسے عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے گزشتہ ایک عشرے کے خونریز ترین بم دھماکوں پر ایک نظر !
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/A. Butt
2007ء: سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ
اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب بے نظیر اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پہلی مرتبہ واپس پاکستان پہنچی تھیں اور ایک جلوس میں شریک تھیں۔ بے نظیر بھٹو کو اُسی برس ستائیس دسمبر کو ایک خود کش حملے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Khawer
2008ء: واہ کینٹ میں حملہ
اکیس اگست سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کے نواح میں واقع واہ کینٹ میں اسلحہ کی ایک فیکٹری (پی او ایف) میں ہوئے دوہرے خود کش بم دھماکے کے باعث چونسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخی میں کسی فوجی تنصیب پر بدترین حملہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2008ء: اسلام آباد کے لگژری ہوٹل پر حملہ
بیس ستمبر کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار میریٹ ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ساٹھ افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔ اس حملے میں دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ غیرملکی بھی شامل تھے جبکہ زخمی خیر ملکیوں کی تعداد پندرہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Matthys
2009ء: پشاور میں حملہ
اٹھائیس اکتوبر سن دو ہزار نو کو پشاور کے ایک مرکزی بازار میں ہوئے ایک کار بم حملے کے نتیجے میں ایک سو پچیس جانیں ضائع ہو گئی تھیں جبکہ زخمیوں کی تعداد دو سو سے بھی زائد تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور القاعدہ دونوں ہی نے قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A Majeed
2009ء: لاہور نشانے پر
دسمبر میں پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کی مون مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں چھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔
تصویر: DW/T.Shahzad
2010ء: والی بال میچ کے دوران حملہ
سن دو ہزار دس میں پاکستان کے لیے یکم جنوری کا دن ہی اداسی لے کر آیا تھا۔ اس دن بنوں ضلع میں اس وقت خود کش حملہ کیا گیا تھا، جب لوگ والی بال کا ایک میچ دیکھنے ایک گراؤنڈ میں جمع تھے۔ اس کارروائی میں ایک سو ایک افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Azam
2010ء: احمدیوں پر حملہ
اٹھائیس مئی کے دن لاہور میں اقلیتی احمدیوں کی دو مساجد پر حملہ کیا گیا، جس میں بیاسی افراد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
تصویر: Getty Images/N. Ijaz
2010ء: ایک قبائلی مارکیٹ میں حملہ
تین ستمبر سن دو ہزار دس کو قبائلی علاقے مومند میں ایک مصروف مارکیٹ کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک سو پانچ افراد لقمہٴ اجل بنے۔ بعد ازاں پانچ نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک خود کش حملہ ہوا، جس میں اڑسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس مرتبہ انتہا پسندوں نے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
2011ء: ڈیرہ غازی خان اور چارسدہ میں تباہی
تین اپریل سن دو ہزار گیارہ کو دو خود کش حملہ آوروں نے ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک صوفی مزار کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پچاس افراد مارے گئے۔ اس برس تیرہ مئی کو بھی دو خود کش بمباروں نے چارسدہ میں واقع پولیس کی ایک تربیت گاہ کو ہدف بنایا، اس خونریز کارروائی کی وجہ سے اٹھانوے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Ahmed
2013ء: اقلیت پر حملے
سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بم دھماکا کیا گیا، جس میں 89 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں بھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ بائیس ستمبر کو پشاور میں اس وقت بیاسی افراد مارے گئے تھے، جب دو خود کش بمباروں نے شہر میں واقع ایک چرچ کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2014ء: اسکول پر بہیمانہ حملہ
سولہ دسمبر کا دن پاکستان میں قہر کا باعث بن گیا تھا۔ اس دن شدت پسندوں نے پشاور کے ایک اسکول پر حملہ کرتے ہوئے ایک سو چوّن افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ہی تھے۔ اسی برس دو نومبر سن دو ہزار چودہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین واقع مرکزی سرحدی گزر گاہ کے قریب ہی ایک خود کش حملہ ہوا تھا، جس میں پچپن افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
2015ء: شیعہ کمیونٹی ایک مرتبہ پھر نشانہ
تیس جنوری کو صوبہٴ سندھ میں شکارپور کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا، جس میں باسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ تیرہ مئی کو شدت پسندوں نے کراچی میں شیعہ اقلیت کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا اور 45 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں یہ پہلا حملہ تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
2016ء: لاہور پارک بم دھماکا
ستائیس مارچ کو لاہور میں واقع بچوں کے ایک پارک پر حملہ کیا گیا، جس میں 75 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے میں بھی مسیحی اقلیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
2016ء: کوئٹہ ہسپتال دھماکا
آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم ستر افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش کے علاوہ طالبان نے بھی قبول کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر حملہ
کوئٹہ میں دہشت گردی کی ایک کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم انسٹھ افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ فوج کے مطابق اس مرتبہ نقاب پوش خود کش حملہ آوروں نے پولیس کی ایک تربیتی اکیڈمی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک زیر تربیت پولیس اہلکار کا کہنا ہے،’’جنگجو سیدھے ہماری بیرک میں پہنچے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ہم چیختے چلاتے بیرک میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Taraqai
15 تصاویر1 | 15
2007ء میں اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف کی حکومت کو لگا کہ تب تک پانی سر سے گزر چکا تھا اور عبدالعزیز کے خلاف کارروائی ناگزیر ہو چکی تھی۔ تب عبدالعزیز کے ہم خیال مذہبی کارکنوں نے ہتھیار بھی اٹھا لیے تھے اور وہ اسلام آباد کی مارکیٹوں میں فلموں اور گانوں کی سی ڈیز فروخت کرنے والی دکانوں کو نہ صرف نشانہ بنانے لگے تھے بلکہ انہوں نے ایک مقامی مساج پارلر سے ایک چینی خاتون کو اغوا بھی کر لیا تھا۔ یہ اور ایسے کئی دیگر واقعات ان وجوہات میں شامل تھے کہ پاکستانی حکومت اور لال مسجد کی اس دور کی انتظامیہ کے روپ میں شدت پسند مذہبی عناصر کے مابین کشیدگی بہت بڑھ گئی تھی۔
پھر دس جولائی سن 2007 کے روز ملکی صدر پرویز مشرف نے لال مسجد میں مورچہ بند مذہبی شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کا حکم بھی دے دیا تھا، جس دوران پاکستانی فوج کو اس کی کارروائیوں میں اسی مسجد سے مسلح کارکنوں کی طرف سے مزاحمت اور تصادم کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ اس متنازعہ آپریشن کو تب کئی پاکستانی نشریاتی اداروں نے براہ راست اپنے ناظرین کو بھی دکھایا تھا اور ایک ہفتے تک جاری رہنے والی اس خونریزی میں قریب سو افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ پھر بالآخر اس مسجد کے خطیب عبدالعزیز اور کئی دیگر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
کیا پاکستان کو داعش سے خطرہ ہے؟
04:48
پاکستان کو اس فوجی آپریشن کے بعد شدید نوعیت کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک بھر میں مذہبی شدت پسندوں نے اس فوجی آپریشن کی مذمت کی تھی اور اسی دوران پاکستان میں ریاست کے خلاف تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی نامی دہشت گرد تنظیم ابھر کر سامنے آئی، جو آج بھی فعال ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران پاکستان کو بے شمار انتہائی خونریز دہشت گردانہ حملوں کا سامنا رہا، اس دوران مجموعی طور پر ہزارہا عام شہری اور سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے جبکہ بعد کے عرصے میں لاکھوں پاکستانی شہری اس وقت مختلف علاقوں، خاص کر پاکستانی قبائلی علاقوں میں اپنے گھروں سے اس وجہ سے رخصتی پر مجبور ہو گئے کہ وہاں فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح آپریشن شروع کر دیے تھے۔
لال مسجد آپریشن کے دوران عبدالعزیز نے برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کی تو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور سیدھا ایک ٹی وی اسٹیشن لے جایا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے عبدالعزیز کو ’ملا برقعہ‘ بھی کہا جانے لگا تھا۔ عبدالعزیز کو نفرت انگیزی، قتل اور اغوا سمیت لگ بھگ دو درجن الزامات کا سامنا بھی تھا، لیکن سن 2009 میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
اس بارے میں سماجی کارکن جبران ناصر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’عبدالعزیز تمام مقدمات میں بری ہوگئے۔ سرکاری سطح پر ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی خواہش پائی ہی نہیں جاتی۔‘‘ جبران ناصر نے کہا کہ حکومت نے عبدالعزیز کو ان کے گھر پر نظربند بھی رکھا لیکن اب وہ ایک مرتبہ پھر اپنے بیانات اور خطبات سے شدت پسندانہ سوچ رکھنے والے نوجوانوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف ایک طاقت ور آواز سمجھے جانے والے پرویز ہودبھائی کا کہنا ہے، ’’حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے تحریک طالبان پاکستان کو تو اپنا ہدف بنا رکھا ہے لیکن عبدالعزیز کو نہیں۔ عبدالعزیز کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے اور ہمدردی کا یہ جذبہ دوبارہ حملے کا شکار بن جانے کے خوف سے زیادہ طاقت ور ہے۔‘‘
اسی طرح معروف تجزیہ کار زاہد حسین نے اے ایف پی کو بتایا، ’’عبدالعزیز اور دیگر شدت پسند مذہبی شخصیات کو دی گئی چھوٹ ان خدشات میں اضافے کی وجہ ہے کہ پاکستانی دارالحکومت میں 2007ء کی سی صورتحال دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘ سن 2014 میں عبدالعزیز کے زیر اثر چلنے والے ایک مدرسے کی طالبات کی ایک ایسی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں وہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی حمایت کرتی نظر آ رہی تھیں۔ اسی سال عبدالعزیز نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں نظام خلافت رائج ہونا چاہیے۔
اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود نے اے ایف پی کو بتایا کہ کوئی بھی لال مسجد کے اس سابق خطیب کو نئے سرے سے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتا اور حکام ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
عبدالعزیز کا نام پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ اس سال عبدالعزیز کے حامیوں کی جانب سے لال مسجد آپریشن کے دس برس پورے ہونے کے موقع پر نکالی جانے والی ایک ریلی پر عدالت نے پابندی لگا دی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عبدالعزیز اسلام آباد کی لال مسجد میں داخل بھی نہیں ہو سکتے اور ان کو جمعے کے روز خطبہ دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
لال مسجد کے موجودہ تیس سالہ خطیب عامر صدیق، جو عبدالعزیز ہی کے بھتیجے ہیں، کا کہنا ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ماضی اور ایک عشرہ پہلے کے شدت پسندانہ موقف کو بھلا دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں اپنے اور دہشت گردانہ سوچ کے درمیان واضح فاصلہ پیدا کرنا ہوگا۔‘‘