پاکستان میں انتہا پسند ووٹروں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہوا؟
31 جولائی 2018
توہین مذہب کے خلاف قانون کے تحفظ کی بنیاد پر قائم کردہ سیاسی پارٹی ’تحریک لبیک پاکستان‘ اگرچہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر بھی کامیابی حاصل نہ کر سکی تاہم اس پارٹی نے قریب ساڑھے پانچ ملین ووٹرز کی حمایت حاصل کی۔
اشتہار
پچیس جولائی کو ہوئے عام انتخابات میں انتہا پسندانہ اور جنگجو تنظیموں کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی حصہ لیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ان انتخابات میں ان جماعتوں کے پندرہ سو سے زائد امیدوار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مختلف حلقوں سے کھڑے ہوئے تھے۔ ان امیدواروں میں سے مصدقہ طور پر صرف دو ہی کامیاب ہوئے، جنہوں نے صوبہ سندھ کی اسمبلی تک رسائی حاصل کی۔
اگرچہ انتہا پسندانہ نظریات کی حامل ان پارٹیوں کے امیدوار قومی اسمبلی میں کوئی بھی نشست حاصل نہ کر سکے تاہم انہیں جتنے ووٹ پڑے، انہیں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ مرکزی سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک مشکل بن سکتے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان
ان گروپوں میں تحریک لبیک پاکستان ایک اہم سیاسی طاقت بنتی نظر آ رہی ہے۔ خادم حسین رضوی کی قیادت میں یہ پارٹی توہین مذہب کے خلاف قانون کے تحفظ کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ رضوی نے مبینہ طور پر یہ بیان بھی دیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آ گئے تو ہالینڈ پر ایٹم بم پھینک کر اسے اس دنیا کے نقشے سے ہی مٹا دیا جائے گا۔ شدت پسندی کو فروغ دینے والے مذہبی رہنما رضوی کے اس بیان کی وجہ ہالینڈ میں پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی اشاعت بنی تھی۔
کس جماعت کو کتنے پاکستانیوں نے ووٹ دیے؟
پاکستان کی قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے تحریک انصاف سب سے نمایاں رہی۔ ملک بھر میں ووٹرز کی تعداد قریب 106 ملین تھی۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس جماعت کو ملک بھر سے کتنے ووٹ ملے۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
1۔ پاکستان تحریک انصاف
قومی اسمبلی میں 116 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ملک بھر سے 16.8 ملین ووٹرز کا اعتماد حاصل ہوا۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پی ٹی آئی پنجاب سے 11.1 ملین ووٹوں کے ساتھ پہلے، سندھ سے 1.5 ملین ووٹوں کے ساتھ تیسرے، خیبر پختونخوا سے 2.1 ملین ووٹوں کے ساتھ پہلے جب کہ بلوچستان میں ایک لاکھ نو ہزار ووٹوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad
2۔ پاکستان مسلم لیگ نون
پاکستان مسلم لیگ نون قومی اسمبلی کی محض 64 نشستیں حاصل کر پائی لیکن ملک بھر سے 12.9 ملین افراد نے اس جماعت کو ووٹ دیے تھے۔ صوبائی اسمبلیوں میں پی ایم ایل این پنجاب سے 10.5 ملین ووٹوں کے ساتھ دوسرے، سندھ سے 2 لاکھ 37 ہزار ووٹوں کے ساتھ آٹھویں، خیبر پختونخوا سے 6 لاکھ 43 ہزار ووٹوں کے ساتھ پانچویں اور بلوچستان سے قریب 29 ہزار ووٹ حاصل کر کے گیارہویں نمبر پر رہی۔
تصویر: Reuters/M. Raza
3۔ پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی 6.9 ملین ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہی۔ صوبائی اسمبلیوں میں پی پی پی کو سب سے زیادہ 3.8 ملین ووٹ سندھ میں ملے جہاں اسے صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ یہ جماعت پنجاب میں 1.8 ملین ووٹ حاصل کر کے چوتھے، خیبر پختونخوا میں قریب ساٹھ لاکھ ووٹوں کے ساتھ چھٹے اور بلوچستان میں 57 ہزار ووٹوں کے ساتھ نوویں نمبر پر رہی۔
تصویر: DW/R. Saeed
4۔ آزاد امیدوار
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں درجنوں امیدوار آزاد حیثیت میں بھی کامیاب ہوئے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے لیے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے والوں کو مجموعی طور پر چھ ملین سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
5۔ متحدہ مجلس عمل پاکستان
مذہبی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے ملک بھر سے 2.5 ملین ووٹ حاصل کیے اور اس اعتبار سے چوتھی بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی۔ صوبائی اسمبلیوں میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے ایم ایم اے خیبر پختونخوا میں دوسرے، بلوچستان میں تیسرے، سندھ میں چوتھے اور پنجاب میں چھٹے نمبر پر رہی۔
تصویر: DW/U. Fatima
6۔ تحریک لبیک پاکستان
تحریک لبیک پاکستان سندھ میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں کے علاوہ کوئی اور نشست حاصل نہیں کر پائی تاہم قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اسے ملک بھر سے قریب 2.2 ملین ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے لیے ٹی ایل پی کو چار لاکھ ووٹ ملے اور یہ ساتویں نمبر پر رہی۔ پنجاب میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ تیسری بڑی سیاسی جماعت ثابت ہوئی جسے 1.8 ملین ووٹ ملے تاہم وہ یہاں سے کوئی ایک نشست بھی نہ جیت پائی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
7۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس
گرینڈ ڈیموکرٹک الائنس صوبہ سندھ میں متحرک تھی اس جماعت کو قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 1.25 ملین ووٹ حاصل ہوئے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدواروں کو 1.5 ملین ووٹ ملے۔
تصویر: DW/U. Fatima
8۔ عوامی نیشنل پارٹی
قومی اسمبلی کے لیے ووٹوں کی تعداد کے حوالے سے اے این پی ساتویں بڑی سیاسی طاقت رہی جسے 8 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے ووٹ دیے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے 8 لاکھ ووٹ حاصل کر کے اس صوبے میں اے این پی تیسری بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی۔
تصویر: DW/Faridullah Khan
9۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قومی اسمبلی کی نشستوں کے امیدواروں کو 7 لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدوار 7 لاکھ ستر ہزار ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر پر رہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
10۔ پاکستان مسلم لیگ
پاکستان مسلم لیگ کے قومی اسمبلی کے امیدوار 5 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر پائے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پی ایم ایل قریب چار لاکھ ووٹ حاصل کر کے ساتویں نمبر پر رہی۔
تصویر: PR Department of Pakistan Muslim League
11۔ بلوچستان عوامی پارٹی
بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ نشتیں حاصل کرنے والی بی اے پی نامی اس جماعت کو صوبائی اسمبلی کے لیے قریب ساڑھے چار لاکھ جب کہ قومی اسمبلی کے لیے 3 لاکھ ستر ہزار سے زائد ووٹ ملے۔
تصویر: Abdul Ghani Kakar
12۔ بلوچستان نیشنل پارٹی
بلوچستان نیشنل پارٹی کے قومی اسمبلی کے لیے امیدوار 2 لاکھ سے زائد ووٹرز کا اعتماد حاصل کر پائے جب کہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو سوا لاکھ سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
تصویر: DW/A.G. Kakar
13۔ اللہ اکبر تحریک
اللہ اکبر تحریک کو حافظ سعید کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ یہ جماعت قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہ کرپائی تاہم قومی اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدواروں نے ملک بھر سے ایک لاکھ ستر ہزار ووٹ حاصل کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
13 تصاویر1 | 13
الیکشن کمیشن کے مطابق اس پارٹی نے قومی اسمبلی کے الیکشن میں 2.33 ملین جبکہ صوبائی انتخابات میں 2.38 ملین ووٹ حاصل کیے۔ سیاسی تجزیہ نگار فصیح ذکاء کے مطابق اس پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پارٹی نے بہت جلد ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں وجود میں آنے والے اس گروہ نے پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لیا تھا۔
توہین مذہب سے متعلق قانون کے حق میں وکالت کرنے والی ’تحریک لبیک پاکستان‘ کی عوامی مقبولیت میں اضافہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی لیے شدید تحفظات کا باعث ہے۔ اس جماعت سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری طویل عرصے سے شدت پسندوں کے حملوں کا شکار بنتی رہی ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق احمدی باشندے غیر مسلم ہیں جبکہ وہ خود کو مسلمان ہی قرار دیتے ہیں۔
اللہ اکبر تکبیر پارٹی
اس الیکشن میں شدت پسند اللہ اکبر تکبیر پارٹی کو بھی ایک اہم سیاسی طاقت قرار دیا جا رہا تھا۔ اس انتہا پسند گروہ کو حافظ سعید کی سرپرستی حاصل ہے۔ حافظ سعید کو ممبئی میں سن دو ہزار آٹھ میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ تصور کیا جاتا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے حافظ سعید کو دہشت گرد بھی قرار دے رکھا ہے۔
حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ پر پابندی کے بعد اس گروپ کے حامیوں نے اللہ اکبر تکبیر پارٹی کے بینر تلے الیکشن لڑے۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی امیدوار کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ تاہم اس پارٹی کو مجموعی طور پر چار لاکھ 35 ہزار ووٹ ڈالے گئے۔ اس پارٹی کو لشکر طیبہ کا ہی ایک چہرہ قرار دیا جاتا ہے۔
اہل سنت والجماعت
اس الیکشن میں حصہ لینے والا تیسرا بڑا مذہبی گروپ اہل سنت والجماعت تھا۔ یہ بنیاد پرست سنی گروہ پاکستان میں شیعہ برادری کے خلاف کھلے عام نفرت انگیزی کرتا ہے اور اس اقلیت کو ’بدعتی‘ قرار دیتا ہے۔
اس گروہ کے رہنما محمد احمد لدھیانوی نے ایک الیکشن ریلی سے خطاب میں ووٹروں کو لبھانے کی خاطر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر وہ جیتے تو شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا، ’’اگر مجھے شام کو اقتدار ملے تو اگلی صبح تک اس ملک میں ایک شیعہ بھی زندہ مل جائے تو میرا نام تبدیل کر دیجیے گا۔‘‘
اہل سنت والجماعت کو ممنوعہ جنگجو تنظیم لشکر جھنگوی کا سیاسی بازو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ جنگجو گروہ پاکستان میں شیعہ کمیونٹی پر ہوئے متعدد خونریز حملوں میں ملوث رہا ہے۔ اہل سنت والجماعت کے حامی اس الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے تھے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس گروہ کا حمایتی ایک آزاد امیدوار پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہونے میں کامیاب بھی ہو گیا ہے۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
پاکستانی انتخابات: بڑے سیاسی برج جو ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے
پاکستان میں پچیس جولائی کے عام انتخابات کے جزوی، غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کئی بڑے سیاسی برج، جو نئی قومی اسمبلی میں اپنی رکنیت کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، اپنی ناکامی کے ساتھ اب ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
شاہد خاقان عباسی
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے دو انتخابی حلقوں این اے 53 اور این اے 57 سے امیدوار تھے۔ انہیں ایک حلقے سے قریب 48 ہزار ووٹوں اور دوسرے سے تقریباﹰ چھ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ اسلام آباد سے انہیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہرایا۔
تصویر: Reuters/D. Jorgic
مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، تصویر میں دائیں، صوبے خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے امیدوار تھے۔ وہ ان دونوں حلقوں سے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نامزد کردہ رہنما تھے۔ وہ دونوں ہی حلقوں سے کافی واضح فرق کے ساتھ تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہار گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الحق
پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی پارٹی، جماعت اسلامی کے امیر اور متحدہ مجلس عمل کے نامزد کردہ امیدوار سراج الحق صوبے خیبر پختونخوا میں حلقہ این اے سات (لوئر دیر) سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کی ناکامی بہت بڑی اور انتہائی غیر متوقع تھی۔ سراج الحق کو پی ٹی آئی کے امیدوار محمد بشیر خان نے 62 ہزار سے زائد ووٹ لے کر قریب 17 ہزار ووٹوں سے ہرایا۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum
خواجہ سعد رفیق
پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک مرکزی رہنما اور ریلوے کے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا لاہور میں حلقہ این اے 131 میں انتہائی کانٹے دار مقابلہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے تھا۔ سعد رفیق کو 83 ہزار 633 ووٹ ملے جبکہ فاتح امیدوار عمران خان کو 84 ہزار 313 رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کے برعکس سعد رفیق لاہور سے پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/EPA/T. Mughal
چوہدری نثار علی خان
ماضی میں برس ہا برس تک مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے والے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک آزاد امیدوار کے طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ایک حلقے سے امیدوار تھے۔ وہ دونوں حلقوں سے پی ٹی آئی کے ہاتھوں ہارے۔ یہ 1985ء سے لے کر آج تک پہلا موقع ہے کہ چوہدری نثار راولپنڈی سے اپنی پارلیمانی نشست جیتنے میں ناکام رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
عابد شیر علی
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور پانی اور بجلی کے سابق وفاقی وزیر عابد شیر علی، تصویر میں بائیں، فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے بہت تھوڑے فرق (1200 ووٹوں) سے ہارے۔ عابد شیر علی فیصل آباد میں جس انتخابی حلقے سے ہارے، وہ مسلم لیگ ن کا ایک بڑا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
مصطفےٰ کمال
ماضی میں ایم کیو ایم کی طرف سے کراچی کے میئر کے عہدے پر فائز رہنے والے مصطفےٰ کمال، جو اس وقت پاکستان سرزمین پارٹی کے رہنما ہیں، کراچی سے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے امیدوار تھے۔ انہیں ان دونوں ہی حلقوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
تصویر: DW/U. Fatima
غلام احمد بلور
عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما اور طویل عرصے سے ملکی سیاست میں اہم انفرادی اور پارٹی کردار ادا کرنے والے غلام احمد بلور انتخابی حلقہ این اے 31 سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ انہیں بھی پاکستان تحریک انصاف کے ایک امیدوار نے ہرایا۔ ان کے شوکت علی نامی حریف امیدوار کو 88 ہزار ووٹوں کی صورت میں مقامی رائے دہندگان کی متاثر کن حمایت حاصل ہوئی۔
تصویر: Reuters
فاروق ستار
کراچی کے سابق میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار، وسط میں، نے کراچی سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا۔ این اے 245 میں وہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے واضح فرق سے شکست کھا گئے۔ این اے 247 میں فاروق ستار کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی سے تھا۔ اس حلقے کے جزوی، غیر حتمی نتائج کے مطابق عارف علوی کو بھی ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے فاروق ستار پر برتری حاصل ہے۔